ایران اور امریکہ کے درمیان ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کا معاہدہ ہوگیا ہے، جس کو امریکہ اور چھ بڑی طاقتوں نے تاریخی اہمیت کا حامل معاہدہ قرار دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران دس سال تک کسی قسم کا ایٹمی پروگرام جاری نہیں رکھ سکے گا ۔ یورنیم کی افزودگی بھی کم ترین سطح پر لائی جاسکے گی یعنی 19000سے صرف 6000ہزار تک۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایران اس طرح کسی قسم کا ایٹمی ہتھیار بنانے کا صلاحیت نہیں رکھ سکے گا۔ نیز اس دوران ایران کوئی نیا ریکٹر بھی تعمیر نہیں کرسکے گا۔ اس اہم تاریخی معاہدے پر 30جون کو دستخط ہوجائیں گے۔جس کے بعد ایران پر یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں اٹھالی جائیں گی، لیکن ایٹمی سازوسامان سے متعلق پابندیاں بدستور قائم رہیں گی۔ اس معاہدے کے تحت انٹر نیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو ایران کی تمام ایٹمی سہولتوں کا معائنہ کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اگرا یران کی طرف سے کسی قسم کی ''بے ایمانی‘‘ یا دھوکے بازی کا مظاہرہ کیا گیا تو بقول امریکی صدر بارک اوباما ''پوری دنیا کو معلوم ہوجائے گا‘‘۔ ایران کے عوام کی اکثریت نے اس معاہدے کی حمایت کی ہے اور بعض جگہوں پر جشن بھی منایا گیا ہے۔ ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے عوام سخت مصائب کا سامنا کررہے تھے، ایران کی کرنسی بھی شدید متاثر ہوئی تھی، مزید برآںاس کے بہت سے ملکوں کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات بھی متاثر ہوئے تھے ،جن میں پاکستان بھی شامل تھا، تاہم اب اقتصادی پابندیوں کے اٹھ جانے کے بعد ایران کا ایک طرف تو Isolationختم ہوجائے گا،دوسری طرف وہ علاقائی اور عالمی امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کرسکے گا؛تاہم ایران اور امریکہ کے مابین سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان میں چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے اس ایٹمی معاہدے کو بعض عرب ممالک اور اسرائیل نے مسترد کردیا ہے۔ عربوں کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے تحت یہ ضروری نہیں ہے کہ ایران مکمل طورپر ایٹمی ہتھیار بنانے سے دستبردار ہوگیا ہے ، کیونکہ اس نے اس دوران ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے، جس کو وہ ایٹم بم بنانے کے سلسلے میں کسی وقت استعمال بھی کرسکتا ہے۔ اسرائیل کا بھی یہی موقف ہے بلکہ وزیراعظم نیتن یا ہو نے تو اپنی الیکشن کمپین کا محور اور موضوع بناتے ہوئے ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کو ''دھوکہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کو اس معاہدے کے تحت زیادہ آزادی مل جائے گی، اور وہ اپنا ایٹمی پروگرام کسی نہ کسی عنوان سے جاری رکھ سکے گا، جو بعد میں اسرائیل کے علاوہ اس خطے کے دیگر ملکوں کے لئے خطرہ کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی کانگریس کے بعض ارکان نے بھی اسرائیل اور دیگر عرب ملکوں کے خدشات کی حمایت کرتے ہوئے ایرانی صدر کو ایک خط لکھا تھا جس کے الفاظ اشتعال انگیز ہونے کے علاوہ نامناسب بھی تھے، لیکن ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے خلاف چیخ پکار کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی مذاکراتی ٹیم نے اس پر کوئی دھیان دیا یا اس پر کسی قسم کا تبصرہ کیا۔ صرف امریکی صدر نے مخالفت کرنے والوں سے کہا کہ اگر ایران کے ساتھ یہ معاہدہ ہوجاتا ہے تو اس سے مشرق وسطیٰ کے علاوہ عالمی سطح پر امن کے قیام میں بڑی مدد ملے گی۔
اس معاہدے سے پہلے قارئین کو یاد ہوگا کہ اسرائیل مسلسل ایرانی قیادت کو دھمکی دیتا رہتا تھا کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرکے انہیں تباہ کردے گا، جیسا کہ اس نے 80ء کی دہائی میں عراق کے ایٹمی ریکٹر کو تباہ کیا تھا، لیکن امریکہ اور یورپی یونین نے
اسرائیل کے وزیراعظم کو ایسی مہم جوئی سے منع کیا تھا، بلکہ اس کو روکا ہوا تھا، کیونکہ امریکہ اور یورپ کو اس بات کا ادراک ہوچلا تھا کہ اگر اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا اور اس کو تباہ کردیا تو اس کا ردعمل نہایت سخت ہوگا جس سے خود اسرائیل محفوظ نہیں رہ سکے گا، نیز امریکہ کے پالیسی سازوں کو اس بات کا بھی احساس ہوچلا ہے کہ ایران کومشرق وسطیٰ کے معاملات سے علیحدہ یا دور کرکے اس اہم خطے میں اپنے مفادات کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔امریکہ کی یہ بھی کبھی خواہش نہیں رہی کہ وہ ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کرے، چنانچہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرکے امریکہ سمیت چھ بڑی طاقتوں نے ایران کے حوالے سے مشرق وسطیٰ میں ممکنہ جنگ کے آثار کو ختم کیا ہے۔جہاں تک اس معاہدے کے خلاف عربوں کا احتجاج ہے، تو اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، کیونکہ ایران عربوں کے خلاف کسی قسم کی جارحانہ کارروائی کرنے کا نہ تو ارادہ رکھتا ہے اور نہ ہی اس نے کبھی سوچا ہے ، لیکن جہاں تک مشرق وسطیٰ میں اس کے سیاسی و معاشی مفادات کا تعلق ہے تو وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔سعودی عرب کی حکومت کا خیال ہے کہ اس معاہدے کی رو سے ایران
زیادہ کھل کر بلکہ آزادی ہوکر مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرات کو پھیلانے کی کوشش کرے گا، جس میں پراکسی وار بھی شامل ہے جیسا کہ ہمیں اس کی جھلکیاں عراق اور یمن میں دکھائی دے رہی ہیں ، تاہم تمام عرب ممالک ایران کو اپنے لئے خطرہ نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ شیعہ سنی تقسیم کے قائل ہیں، صرف سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں ایران کی اس خطے میں پالیسوں سے خوفزدہ ہیں،لیکن ان عرب ملکوں کو چاہیے کہ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کریں، عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں زیادہ روپیہ خرچ کریں اور اپنے ملکوں میں اقتصادی اصلاحات لاکر غربت کو ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان علاقوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو روکا جاسکے۔اس کی ایک مثال یمن سے دی جاسکتی ہے، جو عرب ملکوں کا سب سے زیادہ غریب ترین ملک ہے۔ یہاں مرکزی حکومت کے خلاف جنگجویانہ کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یمن کی حکومت کے علاوہ امیر ترین عرب ملکوں نے عوام کی اقتصادی صورتحال کو بہتربنانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، جس کے باعث حوثی جیسی تنظیمیں مرکز کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہیں۔ عرب ملکوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا اصل دشمن ایران نہیں بلکہ اسرائیل ہے جو جلدیہ بدیرپورے مشرق وسطیٰ میں اپنی حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے، اور انکل سام کی مدد سے انہیں مسلکی بنیادوں پر تقسیم کرکے انہیں مزید تباہی سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔یہ امر سب عربوں کی توجہ کا طالب ہے۔