کشمیر : بر صغیر کا نا مکمل ایجنڈا

مقبوضہ کشمیر سے متعلق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا تازہ بیان کہ کشمیر بر صغیر کا نا مکمل ایجنڈا ہے‘ تاریخ کی مکمل سچائی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس مسئلہ کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ملکوں کے درمیان دیر پا یا مستقل بنیادوں پر امن کا قیام ممکن نظر نہیں آرہا۔ خصوصیت کے ساتھ آج کل جب بھارت کے پاکستان کے خلاف عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔ بھارت افغانستان کی مدد سے پہلے بھی اور اب بھی پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ اب اس پراکسی جنگ کا جواب دینے کا وقت آگیا ہے۔ یہ سوچ عام با شعور پاکستانیوں کے علاوہ محب وطن سیاسی وعسکری قیادت کی بھی ہے، جنہیں بھارت کے اس رویئے پر نہ صرف افسوس ہے بلکہ وہ اس رویئے کو پاگل پن سے تعبیر کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ جب سے نریندرمودی بھارت کے سرمایہ داروں اور انتہا پسند تنظیموں کے گٹھ جوڑ سے وزیراعظم بنا ہے، پاکستان نفرتوں اور دھمکیوں کا محور بنا ہوا ہے، بلکہ اس کی دلی خواہش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا جائے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے جنوبی علاقوں میں دہشت گردوں کے ساتھ اس کے مراسم مسلسل بڑھ رہے ہیں، تاکہ ان عناصر کی مدد سے پاکستان چین اقتصادی راہداری ترقی کی منازل طے نہ کرسکے ، اس کے ساتھ ہی مودی مقبوضہ کشمیر کے بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ تنازع کوبلوچستان میں چند گمراہ گروپوں کی جانب سے کی جانے والی تخریبی کارروائیوں کو ملاتے ہوئے بلوچیوں کے حقوق سے متعلق بیانات بھی داغ رہا ہے، جو اس بات کا عین ثبوت ہیں کہ بھارت پاکستان کے اندرونی معاملات خصوصیت کے ساتھ جنوبی بلوچستان میں کھل کر مداخلت کررہا ہے، لیکن اب اس کو اس پراکسی وار کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہوجانا چاہئے۔
نریندرمودی کی پاکستان کے خلاف انتہا پسند سوچ کو بی جے پی کے وہ عناصر تقویت پہنچا رہے ہیں، جنہوںنے پاکستان کے قیام کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔ ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ گڑ بڑ کراکر اس پرایک جنگ مسلط کردی جائے۔ نریندرمودی ان انتہا پسندوں کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہا ہے، اس کی بھی خواہش ہے کہ کسی بہانے پاکستان پر حملہ کرنے کا جواز پیدا کرکے اسے نقصان پہنچایا جائے۔ پاکستان کی عسکری قیادت بھارت کی منفی سوچ اور جنگی جنون سے پوری طرح واقف ہے، اسی لئے اب بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندر پراکسی وار کا جواب دینے کی تیاریاں کی جارہی ہیں،کیونکہ پانی سر سے اونچا ہوتا جارہا ہے۔پاکستان کے خلاف اس قسم کی انتہا پسند سوچ بھارت کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی بھی تھی جنہوں نے اپنے مکروفریب سے مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں کو ورغلا کر پاکستان سے علیٰحدگی کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس گہری سازش کے ذریعے بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تھا، لیکن کیا بنگلہ دیش کے تمام معاشی وسماجی مسائل پاکستان سے علیحدگی کے بعد حل ہوگئے ہیں ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ، لیکن تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ اندراگاندھی کو ان کے ایک سکھ گارڈ نے قتل کیا ، جسے وہ اپنا بیٹا کہتی تھیں۔ اس سکھ گارڈ نے اندرا گاندھی سے گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی اور ہتک کا بدلہ لیا تھا۔ واضح رہے کہ اندراگاندھی کے حکم پر بھارت کی فوج نے 8جون1984ء کو امر تسر میں واقع سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا تھا، تاکہ سکھوں کے حریت پسند لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا اور اس کے مسلح ساتھیوں کو گرفتار کیا جاسکے، اس فوجی آپریشن کو آپریشن بلیو سٹارکانام دیا گیا تھا۔ اس سیاہ تاریخ کو یاد کرتے ہوئے بھارت کے تمام سکھ 8جون کو اس آپریشن کی شدید مذمت کرتے ہیں، دوسری طرف اندرا گاندھی کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے صرف دہلی میں تین ہزار سکھوں کو جس میں عورتیں اور بچے شامل تھے، انتہا پسند ہندوئوں نے بڑی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ بہت سے سکھوں نے مسجدوں میں چھپ کراور مسلمان بن کر اپنی جانیں بچائی تھیں۔ دہلی کے علاوہ بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی سکھوں کو اندرا گاندھی کے قتل کے بدلے میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا گیا تھا۔ بھارت کے سکھ اس ہولناک منظر کو آج تک نہیں بھولے، بھارت کے مشہور صحافی اور کالم نگار یسونت سنگھ نے دہلی میں سکھوں کے قتل عام کو یہودیوںکے ہالوکاسٹ سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ''مجھے اپنے آپ کو بھارت کا شہری کہتے ہوئے شرم آتی ہے، ‘‘ چنانچہ اب نریندرمودی اور اس کے انتہا پسند جنونی حواریوں نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات کو بہتر بنانے کے بجائے اس کے خلاف پراکسی جنگ شروع کررکھی ہے۔غالباً ان انتہا پسند بھارتیوں کو کسی نے یہ پٹی پڑھادی ہے کہ پاکستان اندورنی طورپر انتشار کا شکار ہے، معاشی طورپر بھی کمزور ہوچکا ہے، اور قومی اتحاد کا فقدان ہے ، اس لئے اس کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ جس کسی نے بھی انتہا پسند بھارتی قیادت اور ان کے حواریوں کو یہ پٹی پڑھائی ہے وہ خود بھارت کے اندرونی استحکام اور امن کے سب سے بڑے دشمن معلوم ہوتے ہیں۔ شاید نریندرمودی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ پاکستان کے خلاف پراکسی وار کرانے سے خود بھارت بھی داخلی طورپر متاثر ہورہا ہے، کیونکہ بھارت کے اندر جاری پندرہ سے زائد علیحدگی کی تحریکوں کو تقویت مل رہی ہے۔ بھارت کی مرکزی حکومت کے خلاف سب سے بڑی تحریک مائو تحریک ہے۔ بقول سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے ''بھارت کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ یہی تحریک ہے، چنانچہ بھارت کو اپنے اندورنی حالات پر نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ، نیز بھارت کے عوام کی معاشی حالت کتنی خراب ہے اس کا جائزہ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ سے ملتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسی کروڑ بھارتی صرف ایک وقت کی روٹی کھاتے ہیں۔ اکثریت کے پاس گھر نہیں ہے، مہلک بیماریوں کا یہ حال ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں معمولی نوعیت کی دوائیں بھی نا پید ہیں ، جبکہ ہر پانچ منٹ کے بعد ایک بھارتی عورت جنسی تشدد کا شکار بنتی ہے۔ چار ماہ کے اندر صرف مہاراشٹر میںتین سو کسانوں نے قرضہ ادا نہ کرسکنے کی صورت میں خود کشیاں کی ہیں، جبکہ بیس برسوں کے دوران بھارت کی مختلف ریاستوں میں تیس لاکھ چھوٹے بھارتی کسانوں نے خود کشیاں کی ہیں۔ بھارت کے عوام کی یہ ہولناک سماجی تصاویر خود بھارت کے موقر اخبارات میں شائع ہورہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ بھارتی سرکار کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ اُسے مہلک جنگی ساز وسامان خرید نے پر بے پناہ روپیہ خرچ کرنے کی بجائے اپنے عوام کے معاشی حالات سدھارنے پر خرچ کرنا چاہئے ، لیکن جنگی جنون میں مبتلا بھارتی انتہا پسند قیادت اپنے عوام کے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان پر بلا جواز تنقید کر رہی ہے اور اندرونی معاملات میں مداخلت بھی !اس طرح کی سوچ کی موجودگی میں پاک بھارت تعلقات کبھی بہتر نہیں ہوسکتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں