پاکستان کو کمزور کرنے اور اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم نریندرمودی ہر جتن کر رہے ہیں۔ سارک تنظیم جو گزشتہ تیس سال سے قائم ہے اور جس کے با قاعدہ اجلاس ہوتے رہتے ہیں، وہ اسے توڑ کر ایک نئی تنظیم بنانے کی کوشش بڑے زوروشور سے کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کا نام بنگلہ دیش، انڈیا، بھوٹان اور نیپال یعنی (BBIN)تجویز کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان، افغانستان، مالدیپ اور سری لنکا کو شامل نہیں کیا گیا جبکہ بقول مودی سارک تنظیم تجارت‘ امن اور باہمی ثقافت کے فروغ میںناکام ہوچکی ہے۔ حسب معمول انہوں نے اس کا الزام بھی پاکستان کو دیا ہے۔ اس طرح بھارت سارک کے ان چار ممالک کے تعاون سے ایک نئی تنظیم کی بنیاد ڈال رہا ہے، یہ مجوزہ تنظیم ہر لحاظ سے بھارت کی اس خطے میں علاقائی بالادستی کے خواب کو خاصی تقویت پہنچائے گی، کیونکہ اس میں انہی ممالک کو شامل کیا جارہا ہے، جو بھارت کے دست نگر ہیں۔ شنید ہے کہ نیپال کو زبردستی اس میں شامل کیا جارہا ہے اور مجبوری بھی ہے، کیونکہ نیپال کا زمینی اور سمندری راستہ بھارت سے وابستہ ہے اور تجارت کا بھی! تاہم نیپال کے عوام بھارت کی چودھراہٹ سے بہت زیادہ خفا ہیں۔
بھارت کے وزیراعظم سارک کو توڑکر جو نئی تنظیم بنا رہے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی طرح ان ممالک سے پاکستان کے ہر قسم کے تعلقات ختم کردیئے جائیں۔ خصوصیت کے ساتھ باہمی تجارت اور لین دین کے اور پاکستان کو تنہا کردیا جائے۔ بھارت کے وزیراعظم کو نئی تنظیم بنانے کے سلسلے میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے بھر پور انداز میں اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ یقین دہانی تحریری معاہدے کی صورت میں 7 جون کو بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کی صورت میں سامنے آئی۔ واضح رہے کہ نریندرمودی نے 6جون سے 7جون تک دو دن کا بنگلہ دیش کا دورہ کیا ہے جس میں بنگلہ دیش کی حکومت کے ساتھ 22سے زائد معاہدوں سے متعلق ایم او یو پر دستخط کئے گئے ہیں، جن میں ریل اور روڈ کے ذریعہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت کو بڑھانے پر زور دیا گیا ہے، جبکہ دونوں ملکوں کے سرحدوں کے چالیس سالہ پرانے تنازع کا بھی حل نکال لیا گیا ہے۔ ان معاہدوں میں دریائے ٹیسٹی کے پانی کو بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان منصفانہ طورپر تقسیم کرنے سے متعلق بھی سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ ماضی میں ٹیسٹی دریا کے پانی کی تقسیم سے متعلق ان دونوں میں اختلافات پائے جاتے تھے۔ بنگلہ دیش کے بعض صحافیوں کے مطابق حسینہ واجد نے اپنے ملک کے تمام مفادات کو بھارت کے حوالے کردیا ہے۔ یہاں تک کہ فوج کی تنظیم نو اور اس کی تربیت بھی بھارت کی وزارت دفاع کے سپرد کردی گئی ہے۔ ان صحافیوں کے مطابق جب تک حسینہ واجد (جو جعلی انتخابات کے ذریعہ اقتدار میں آئی ہیں) بنگلہ دیش میں اقتدار پر فائز رہتی ہیں‘ ان کی بھارت نواز پالیسیوں کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے جس میں خالدہ کی جماعت اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں ، انہوںنے نریندرمودی کے دورے کا خیر مقدم کرتے ہوئے تمام معاہدوں کی حمایت کی ہے، حسینہ واجد سے بھارت کے ساتھ ایسے اقدامات اور تعلقات کی ہی توقع کی جاسکتی ہے‘لیکن سارک کو توڑنا اور اس کی جگہ ایک نئی تنظیم کو تشکیل دینا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کی موجودہ انتہا پسند جنونی قیادت اس خطے میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی رول کو غیر موثر بنانا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے سارک تنظیم کے باقی ماندہ ملکوں اور بھارت کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگی‘ وہیںیہ خطے مزید تقسیم در تقسیم کے عمل
سے دوچار ہوجائیں گے اور سارک تنظیم کی صورت میں جو ان ممالک کے درمیان مفاہمت اور باہمی دوستی کی زنجیر بنی ہوئی تھی وہ شدید طورپر مجروح و متاثر ہوگی۔ بھارت کی خواہش بھی یہی ہے، حالانکہ سارک تنظیم کو غیر موثر اور غیر فعال بنانے میں خود بھارت کا بہت بڑا رول رہا ہے، سارک تنظیم کے ممالک کے درمیان آزاد تجارت کو فروغ دینے کے سلسلے میں معاہدے بھی ہوچکے تھے، چونکہ بھارت اپنی بالادستی کے خواب پورا کرنے سے باز نہیں آرہا‘ اس لئے ان تمام تجارتی و ثقافتی معاہدوں کے علاوہ سارک ممالک میں غربت ختم کرنے سے متعلق بھی جن معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے، ان پر جان بوجھ کر عمل نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے سارک ممالک‘ خصوصاً بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کو ختم کرنے سے متعلق کسی قسم کے ٹھوس اقدامات اٹھائے گئے، ہر چند کہ سارک چارٹر کے تحت سارک تنظیم کے ممالک سیاسی تنازعات پر گفتگو کرنے کے مجاز نہیں ہیں، لیکن پھر بھی سری لنکا، مالدیپ ، نیپال اور بھوٹان کی حکومتوں نے سارک تنظیم کی گائیڈ لائن پر یہ مشورہ دیاتھا، کہ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے سیاسی تنازعات پر بات چیت کرنی چاہئے تاکہ اس تنظیم کے ملکوں کے درمیان موجود غلط
فہمیوں اور مسائل کو حل کیا جائے، لیکن اب بھارت کا جنونی وزیراعظم سارک تنظیم کو بھی توڑنے پر تلاہو ا ہے، حالانکہ اس سارک تنظیم کی موجودگی سے جنوبی ایشیا میںمجموعی طور پر امن کی صورت برقرار تھی، لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوسکے گا۔ نریندرمودی بھارت کی تاریخ میں اندراگاندھی کی طرح پاکستان کے خلاف جارحیت کرکے اپنا نام امر کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ اپنی اس خطرناک سوچ کے ذریعہ جس راستے پر چل نکلا ہے وہ پورے خطے کے لئے انتہا ئی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ سارک تنظیم 80ء کی دہائی میں بنگلہ دیش کے فوجی حکمران جنرل ضیا الرحمن نے بنائی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے ان ملکوں کے درمیان تجارت اور ثقافت کے ذریعہ انہیں ایک دوسرے کے قریب لاکر امن کے کاز کو تقویت پہنچائی جائے، لیکن اب بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت اس تنظیم کو توڑنے کے لئے بھارت کی انتہا پسند حکومت کا ساتھ دے رہی ہے اور ان خیالات اور تصورات کی نفی کررہی ہے، جو اس تنظیم کے بانیوں نے اس خطے کے عوام کی بہتری و بھلائی کے لئے سوچے تھے؛ تاہم میں نہیں سمجھتا کہ سارک ممالک کے دیگر ممالک اس مجوزہ تنظیم کو اتنی آسانی سے توڑنے کی اجازت دیں گے، بلکہ انہیں بھارت کی اس انتہائی غیر سیاسی اور غیر اخلاقی سوچ کے خلاف متحد ہوکر اس سازش کو ناکام بنانے کی کوشش شروع کردینی چاہئے‘ ورنہ خدشہ یہ ہے کہ کہیں بھارت پاکستان دشمنی میں اس پورے خطے کو ایک خوفناک مسلح تصادم کی آگ میں نہ جھونک دے۔