کراچی ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ تین ہفتوں کے دوران چار ڈی ایس پی قتل کر دیے گئے۔ قاتلوں کا اب تک کوئی پتہ نہیں چلا۔ گزشتہ منگل کے دن ڈی ایس پی مجید عباس کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ اپنے دفترجارہے تھے۔ حسب معمول وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، جس کا میرے خیال کے مطابق کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کچھ دن پہلے قتل ہونے والے ڈی ایس پی کے قتل سے متعلق بھی آئی جی سندھ کو اسی قسم کی ہدایت کی تھی، لیکن اس تحقیقات کا بھی کوئی پتہ نہیںچلا ، ڈی ایس پی مجید عباس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری پر بننے والی نئی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایس پی ساجد کے ساتھ بطور معاون کام کررہے تھے۔ پولیس افسران کے قتل کے علاوہ اس شہر تاریکی میں (پہلے اس کو عروس البلاد کہا جاتا تھا) ایک دو دن چھوڑ کر ایک نہ ایک پولیس کا سپاہی مارا جارہا ہے، جن کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا، چنانچہ حالات کی تلخی کو محسوس کرتے ہوئے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ٹارگٹڈ آپریشن اپنے منطقی انجام تک پہنچے سے پہلے ہی آئی سی یو میں چلا گیا ہے؟ اسی قسم کا سوال سندھ کے صوبائی وزیرداخلہ سہیل انور خان سیال نے کیا ہے، بلکہ وفاق پر الزام لگایا ہے کہ وہ کراچی آپریشن میں سندھ حکومت کے ساتھ معاونت نہیں کررہا ہے۔ آرمی چیف کی یقین دہانی کے باوجود آپریشن کے لئے رواں مالی سال میں جون تک فنڈز نہیںملے، نیز یہ بھی کہا گیا تھا کہ کم از کم دس ہزار افراد کو سندھ پولیس میں بھرتی کیاجائے گا، لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ وجہ بظاہر فنڈز کی کمی معلوم ہوتی ہے۔
سندھ کی حکومت نے دعویٰ کیا تھا، بہت حد تک دہشت گردوں اور ان کے نیٹ ورک کو ختم کردیا گیا ہے ، لیکن اس دعویٰ کی صداقت کی اس وقت نفی ہوجاتی ہے جب پولیس افسران ، پولیس کا عام سپاہی اور کراچی کا عام شہری روز قتل کیا جارہا ہے اور سفاک قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا، حالانکہ اس وقت سندھ پولیس کے پاس جدید اسلحہ موجود ہے، اور مجموعی طورپر سندھ پولیس دہشت گردی کے خلاف لڑنے اور اس کا قلع قمع کرنے کے لئے پرعزم ہے، اس لئے وفاقی حکومت کو سندھ کے وزیرداخلہ کی جائز شکایت پر غور کرتے ہوئے اس کا فوری ازالہ کرنا چاہئے ورنہ سماج دشمن عناصر کے خلاف جنگ طول پکڑ جائے گی جو پاکستان کے اس معاشی حب کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، نیز وزیراعظم صاحب نے گذشتہ سال کراچی آپریشن کے آغاز سے قبل ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس آپریشن کی مانیٹرنگ کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی تاکہ اس کے ذریعہ ٹارگٹڈ آپریشن کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے اور اگر کسی سیاسی جماعت کو کوئی شکایت ہے تو اس کا ازالہ بھی کیا جاسکے، لیکن یہ مانیٹرنگ کمیٹی ہنوز بن نہیں سکی، دوسری طرف بعض سیاسی جماعتوں جن میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے، اس کی یہ شکایت کئی بار اخبارات میں شائع ہوچکی ہے کہ اس آپریشن کا رخ ان کی جماعت کی طرف کیا جارہا ہے، حالانکہ صوبائی اور وفاقی حکومت اس الزام کی تردید کرتی تھیں کہ یہ آپریشن بلا امتیاز تمام دہشت گردوں کے خلاف کیا جارہا ہے اور ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوسکتا ہے۔
کراچی کے عوام کے نزدیک کراچی آپریشن کا شعلہ ماند پڑتا نظر آرہا ہے، کیونکہ کراچی کے مختلف مقامات پر اب ایک بار پھر چور ڈاکو متحرک ہوگئے ہیںاور کھلے بندوں لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ بھتہ خوری بھی شروع ہوچکی ہے۔ ابھی رمضان شریف کا مہینہ شروع نہیں ہوا لیکن زکوٰۃ کے نام پر کراچی کے مختلف علاقوں میں پرچیاں بھیجی جارہی ہیں اور ان پر دبائو ڈال کر زکوٰۃ کا پیسہ وصول کیا جارہا ہے۔اس قسم کی پرچیاں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے آرہی ہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے ، زکوٰۃ کا پیسہ خالصتاً غریبوں اور ناداروں کے لئے وقف ہے نہ کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لئے جن کا اپنا ایجنڈا ہے اور جس کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔ اس صورتحال کا تدارک کرنے میں انتظامیہ ناکام نظر آرہی ہے، علاوہ ازیں اپیکس کمیٹی کا قیام بھی عمل میں آچکا ہے، جس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ کراچی آپریشن کو کامیاب کرائے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ کچھ دن قبل کراچی کے کورکمانڈر نے سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی پر ایک سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے نظم ونسق کو درست کرتے ہوئے بہتر کارکردگی کا مظاہر ہ کرے۔ ان کی کھری کھری باتوں کا پی پی پی کے کچھ نا عاقبت اندیش عناصر نے برامنایا تھا، حالانکہ ان کا مقصد اصلاحی تھا اور وہ صدق دل سے کراچی سمیت سندھ کے حالات کو بہتر گورننس کے ذریعہ اچھا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی قسم کی خواہش کراچی اور سندھ کے عوام کی بھی ہے، کیونکہ سندھ کی صوبائی حکومت کی بے لگام کرپشن سے جہاں قانون اور انصاف کے تقاضے شدید متاثر ہوتے ہیں، وہیں ایک عام آدمی روزگار کے حصول کے سلسلے میں بے یار ومددگار ہوتا جارہا ہے۔ کمزور معیشت کے علاوہ پانی اور بجلی کے بحران کے ساتھ ساتھ کراچی کی بے ہنگم ٹریفک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ان تمام عوامل نے مل کر کراچی کو ایک ایسا شہر بنا دیا ہے جہاں بھیڑ ہی بھیڑ ہے، جس کی کوئی سمت نہیں۔ دوسری طرف محرومیوں کا ایک سیل رواں ہے‘ جس کا فی الوقت کوئی حل نظر نہیں آرہا؛ چنانچہ کراچی کی اس صورتحال کے پیش نظر ایک بار پھر سماج دشمن عناصر متحرک ہوگئے ہیں بلکہ جیسے جیسے رمضان المبارک قریب آرہا ہے یہ عناصر زیادہ فعال ہوکر عوام کو ان کی جمع پونجی سے محروم کرنے لگے ہیں۔ کراچی پولیس اور اس کے افسران بہت حد تک اس بگڑتی ہوئی صورتحال سے واقف ہیں، لیکن سیاسی قیادت کی کمزوریاں‘ مفاد پرستی اور بسا اوقات ''مجبوری‘‘ پولیس کی کارکردگی کو ایک بار پھر پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہے، جس سے سماج دشمن عناصر بھر پور فائدہ اٹھارہے ہیں، اس لئے کراچی کے عوام کا یہ سوال اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا کراچی ایک بار پھر ان عناصر کے رحم و کرم پر ہوگا جنہوں نے اس شہر کو آسیب زدہ اور تاریک شہر میں بد ل دیا ہے؟ کیا پولیس کے سپاہی اور افسران اس طرح مرتے رہیں گے، قاتل پکڑے نہیں جائیں گے، تحقیقاتی ٹیم کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ پائے گی، سندھ کی حکومت مرنے والوں کو معاوضہ دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجائے گی، اور تماشائے اہل کرم دیکھنے والے اپنی مجبوریوں‘ محرومیوں اور بے بسی کے سامنے آنسو بہا کر خاموش ہوجائیں گے؟ کیا زندگی کا کارواں یونہی چلتا رہے گا؟ نہیں حضور‘ ایسا نہیں ہوگا، اہل دل اور اہل وفا کے قافلے جب سڑکوں پر نکلیں گے تو کاخِ امرا کے درو دیوار لرز جائیں گے، انتظار کیجئے۔