اپنے اپنے دائرے میں کام کریں؟

پاکستانی سیاست دان جو انتخابات کے بعد عوام کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور نہ ہی ان کا دکھ درد باٹنے کو تیار ہوتے ہیں، آجکل ایک جملہ کثرت سے استعمال کرتے ہیں، کہ ''ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے، ‘‘ یہ جملہ وہ سیاست دان استعمال کرتے ہیں جن کا کردار مشکوک ہونے کے علاوہ ہر قسم کی کرپشن سے آلودہ ہے۔ اس جملے کا یہ بھی مقصد ہے کہ ہم جو کچھ بھی کررہے ہیں، ہمیں کرنے دیا جائے چاہے، اس ملک کا بیٹرہ غرق ہوجائے، ہمیں کوئی روکنے ٹوکنے کی کوشش نہ کرے۔ تاہم کسی بھی آزاد ، خودمختار اور ذمہ دار ملک میں کوئی بھی ادارہ مکمل آزاد نہیں ہوتا اور نہ ہی مملکت کی سالمیت کے حوالے سے ایسی آزادی کسی بھی ادارے کو دی جاسکتی ہے، چنانچہ جب رینجرز نے سماج دشمن عناصر کے علاوہ مختلف سرکاری محکموں میں موجود کرپٹ عناصر پر ہاتھ ڈالا تو چند سیاست دان چیخ پڑے اور مطالبہ کیا کہ نیم عسکری ادارے یعنی رینجرز اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ جناب قائم علی شاہ نے تحریری طورپر اس قسم کی شکایت رینجرز کے سربراہ سے کی ہے۔ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انہیں ایسا لکھنے کی ہدایت کی تھی۔ قائم علی شاہ نے بغیر سوچے سمجھے یہ خط ڈی جی رینجرز کو لکھ دیا اور اب پچھتا رہے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ رینجرز کو ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے ہر قسم کے اختیارات ملے ہوئے ہیں، اور وہ ان تمام اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سماج دشمن عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کررہے ہیں جنہوں نے کراچی کے امن کو تباہ کیا، اور اس کی اکانومی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ تاہم، جب تک رینجرز نے پی پی پی کے کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی تھی، اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن جیسے ہی پی پی پی کے کرپٹ اور بدنام زمانہ افسران قانون کی گرفت میں آئے، آصف علی زرداری چیخ پڑے، آپے سے باہر ہوگئے اور انہوںنے دھمکی دی کہ ''اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی‘‘۔ دراصل کراچی بلکہ پورا سندھ گذشتہ سات آٹھ سال سے سنگین نوعیت کی دہشت گردی کے علاوہ ہر محکمے میں غیر معمولی کرپشن کا شکار رہا ہے۔ سندھ کے عوام کو اس بے لگام ہونے والی کرپشن سے متعلق معلومات تھیں، مگر کیونکہ ان کے پاس اختیارات نہیں تھے، اس لئے بے بس تھے۔ اختیارات سندھ حکومت کے پاس تھے جو کرپشن کو ایک ایجنڈے کے تحت پھیلا رہی تھی، تاکہ جہاں پی پی پی کی قیادت اور اس کی کاسہ لیسی کرنے والے امیروکبیر بن جائیں، وہیں پاکستان معاشی طورپر کمزور اور نا تواں ہوجائے اور بعد میں یہ ناکا م ریاست کی صورت میں اپنی خودمختاری کھودے۔ یہ وہ خطرناک ایجنڈا تھا جس پر بعض سیاست دان عملی طور پر کام کررہے تھے، لیکن خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور اب و ہ وقت آگیا جب ملک کے وسائل کو ذاتی تصرف میںلانے والے ،لوٹ مار کرنے والے اور بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کرنے والے قانون کی گرفت میں آنے لگے ہیں۔ کسی ماہر عمرانیات نے صحیح کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور کرپشن دونوں ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے سوہان روح بن چکے ہیں، اگر ریاست کو بچانا ہے تو ان دونوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے۔ ضرب عضب سے کسی حد تک فاٹا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی کمر توڑدی گئی ہے، اور ملک میں آہستہ آہستہ امن قائم ہوتا جارہا ہے،لیکن ابھی بہت سا کام باقی ہے۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات 75%کم ہوگئے ہیں، اور بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات کم ہورہے ہیں، کراچی میں چھوٹی موٹی وارداتوں کے علاوہ سنگین نوعیت کی وارداتوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ اہم فریضہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ادا کررہے ہیں، ملک اور معاشرہ کو بچارہے ہیں ، لیکن کرپٹ اور بد نام سیاست دان ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھارہے ہیں، بلکہ ان کی کارروائیوں کو متنازع بنانے کے لئے ایسے بیانات داغ رہے ہیں، جن کا نہ کوئی سر ہے ،نہ پیر ، لیکن اس تمام شوروغوغا کے باوجود موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت نے سمجھ لیا ہے کہ معاشی دہشت گردی اور طالبان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کو روکے بغیر گلشن کا کاروبار احسن طریقے سے نہیں چل سکتا ، موجودہ حالات میں کم از کم ان سیاست دانوں کو سوچنا چاہئے جو محب وطن ہیں کہ وہ کس طرح ان کی لوٹ کر باہر جمع شدہ کی ہوئی دولت کو پاکستان میں لاسکتے ہیں، جنہوں نے سرکاری محکموں میں اپنے کارندوں کے ذریعہ قومی وسائل کی خرد برد کی۔ کیا وہ غیر ملکی ایجنٹ نہیں ہیں؟ یقینا یہی وہ عناصر ہیں جنہوںنے قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیر کر مملکت خداداد کو اس کمزور سطح پر لا کھڑا کیا ہے، اور جب ان عناصر کو گرفت میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ پاکستان کے عسکری اداروں کو بے جا تنقید کا نشانہ بنا کر خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ عناصر معصوم نہیں ہیں، بد کردار ہیں بلکہ انتہائی چالاک اور عیار ہونے کے ساتھ ساتھ بے رحم بھی ہیں، جو اپنے ذاتی مفاد اور ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر اس ملک کے وجود کو دائو پر لگا دینے سے بھی گریز نہیں کررہے ،جبکہ مخالفین کو جن میں پولیس اور رینجرز کے افسران بھی شامل ہیں، بے دردی سے قتل کررہے ہیں، چنانچہ ایسے ہی سیاست دان اپنی کرپشن اور کرتوتوںکو چھپانے کے لئے کہتے ہیں ''ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہئے‘‘ واہ کیا کہنے! ملک تباہ ہوتا رہے اور یہ عناصر لوٹ مار میں مصروف ومشغول رہیں، ان کی گرفت کرنے والا یا باز پرس کرنے والا کوئی نہ ہو؟ ایسی بے لگام اور مادر پدر آزادی کسی چھوٹے سے افریقی ملک کو بھی حاصل نہیں ہے، وہاں بھی قانون کی گرفت ایسے عناصر کو ان کی اوقات دکھا دیتی ہے اور ایسی سزا بھی دی جاتی ہے کہ بعد میں آنے والی ان کی نسلیں یادرکھیں۔ ماضی میں پاکستان میں سیاست کی آڑ میں کام کرنے والے لٹیروں اور بد معاشوں کو سزا نہیں ملی ، اس لئے ان کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں لیکن اب قانون کا پہیہ چل چکا ہے، زرداری صاحب اور اس کے کرپٹ دوست آنے والے دنوں میںقانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گے۔ ، اس کو مکافات عمل کہتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں