کراچی گرمی کی شدت اور تپش سے جل رہا ہے۔ کم از کم ایک تہائی کراچی بجلی اور پانی سے محروم ہے۔ اس ہوش اڑانے والی گرمی میں ایک ہزار کے قریب افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اگر صورتحال یہی رہی تو اموات کی تعداد میں اضافہ ہوسکتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران کراچی میں اتنی شدت سے گرمی نہیں پڑی جتنی ان دنوں پڑرہی ہے۔ کراچی میں خدمات سے متعلق تمام ادارے اس صورتحال کی اصلاح یا پھر ان کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ کراچی میں موجود سیاسی پارٹیاں اخبارات میں بیان دے کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوجاتی ہیں۔ کراچی شہر جس کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ کم وسائل اور غریب لوگوں کی پریشانی ناقابل بیان ہے، بلکہ مرنے والوں کی اکثریت کا تعلق غریب طبقے سے ہی ہے۔ کے الیکٹرک جس کی ذمہ داری کراچی کے باسیوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے بجلی پہنچانا ہے ، وہ تقریباً ناکام ہوچکا ہے۔ اس ادارے نے اپنا خسارہ پورا کرنے کے لئے جعلی بلوںکے ذریعہ نہ صرف عوام کو پریشان و ہراساں کیا ہے،بلکہ بڑی بے دردی سے لُوٹا بھی ہے۔ یہ ادارہ بجلی کی عدم فراہمی اور مسلسل لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام کی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے بلکہ بعض جگہ اس کے دفاتر کو آگ بھی لگائی گئی ہے۔ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں اس ادارے نے کوئی اقدامات بھی نہیں کیے۔ کراچی کی اس پریشان کن صورتحال کا ازالہ کمشنری نظام بھی ٹھیک کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکاہے۔ کمشنری نظام لوکل باڈیز کا نعم البدل نہیںہے اورنہ ہی ہوسکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے یہ نظام زبردستی عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔ حکومت نے یہ یقین دلایا تھا کہ اس کمشنری نظام سے عوام کے مسائل سرعت کے ساتھ بلکہ دیر پا بنیادوں پر حل ہوسکیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوام کی شکایتوں اور احتجاج کے پس منظر میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، لیکن ایک بات بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ موجودہ صوبائی حکومت ناجائز دولت حاصل کرنے کے لئے ایسے عناصر کی سرپرستی کررہی تھی جو پاکستان دشمن طاقتوں کی مالی مدد کررہے تھے، جیسا کہ کراچی فشریز کے وائس چیئرمین سلطان صدیقی کے بیانات سے ظاہر ہوا ہے۔ اس طرح کئی ایسے عناصر جس میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا منظور کا کا بھی شامل ہے، وہ لوٹ مار اور لینڈ گریبنگ کرکے پاکستان کو معاشی نقصان پہنچارہا تھا۔ یومیہ دو کروڑ روپے بلاول ہائوس جارہے تھے۔ کراچی اور سندھ کی دیگر محکموں میں اس کھلی لوٹ مار کرنے کے علاوہ اس حکومت کے پاس کسی قسم کا ترقیاتی کام کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی گزشتہ سات سالوں میںاپنی مالی قوت و حیثیت کھوتا جارہا ہے۔ اس کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر رینجرز یا پھر اور کوئی قانون نافذ کرنے والے ادارے اصلاح احوال کے لئے حب الوطنی کے جذبے سے آگے بڑھتے ہیں تو اس پر صوبائی حکومت اور اس کے سرپرست اعلیٰ آصف علی زرداری تنقید کرنے لگتے ہیں اور پورے آپریشن کو متنازع بنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں تاکہ یہ سلسلہ رک جائے لیکن رینجرز بلا امتیاز سماج دشمن بھتہ خوروں اور ٹارگٹڈ کلرز کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور یہ سب قانون کے مطابق ہے۔ اس لئے ان بدعنوان سیاست دانوں کو رینجرز کی یہ کارروائیاں ناگوار لگ رہی ہیں اور ان سے بچنے کے لئے نت نئے طریقوں سے مزاحمت کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں، تاہم صوبائی حکومت اور اس کے سرپرست اعلیٰ کی تمام چالاکیاں اور ترکیبیں کرپشن اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو روک نہیں سکیں گی۔ کرپشن کو جڑسے اکھاڑنے اور کرپٹ عناصر کے خلاف موثر اور نتیجہ خیز کارروائی کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔ اگر یہ سلسلہ کسی مصلحت یا سیاسی دبائو کی وجہ سے رک جاتا ہے یا پھر موخر کیا جاتا ہے تو آئندہ اس کے نتائج ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتے۔ دوسری صورت میں کرپٹ عناصر ایک بار پھر قانون کی کمزور گرفت کے پیش نظر بھر پور انداز میں بدعنوانیوں کو فروغ دیں گے،اور عوام دیکھتے رہیں گے۔
چنانچہ آج کراچی جس تکلیف دہ صورتحال سے گزرہا ہے اس کی تمام ذمہ داری صوبائی حکومت کی کارکردگی سے وابستہ ہے۔ اگر گزشتہ سالوں میں کراچی کے بنیادی مسائل حل کرنے پر غور وفکر سے کام کیا جاتا تو صورتحال اتنی پریشان کن اور تکلیف دہ نہ ہوتی جتنی آج ہے۔ عوام یقینا اس گمبھیر صورتحال کے خلاف احتجاج کرنے میں حق بجانب ہیں، لیکن ان تمام احتجاجوں کے باوجود صورتحال میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہیں ہورہی اور نہ ہی پانی اور بجلی کا مسئلہ حل ہورہا ہے، چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کا کیا حل ہے؟ پاکستان کے آئین کے مطابق اگر کسی صوبے کی حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے اور ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ہے تو پھر گورنر راج ہی اس مسئلہ کا حل ہے۔ گورنر راج سے کم از کم اداروں کی کارکردگی اور ان کی حیثیت بحال ہوسکے گی اور ایسے افسران جو سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں
کررہے ہیں اور ان کی کارکردگی بھی اچھی نہیں ہے، انہیں آسانی سے فارغ کیا جاسکے گا۔ اٹھارویں ترمیم اس میں اگر رکاوٹ بن رہی ہے تو وفاقی حکومت بہ آسانی اس میں مزید ترمیم کرسکتی ہے جس کی گنجائش موجود ہے۔ کوئی بھی شخص آئین سے زیادہ معتبر یا محترم نہیں ہے، اس لئے اگر سندھ میں گورنر راج نافذ ہوجاتا ہے تو سماج دشمن عناصر اور کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف قانون کی روشنی میں کارروائی کرنے میںبڑی آسانی پیدا ہوسکے گی۔ کرپٹ عناصر جن میں بیوروکریسی کے لوگ میں بدرجہ اتم موجود ہیں، وہ بھی نہیں چاہیں گے کہ گورنرراج کا نفاذ عمل میں آئے ، کیونکہ انہی کی ملی بھگت سے سیاست دانوں نے غیر معمولی کرپشن کا ارتکاب کرکے ملک کو کمزور کیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ صوبہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت ٹھیک کام کررہی ہے تو وہ دراصل حقائق کو چھپا رہا ہے۔ اگر سب کچھ صحیح ہوتا یا پھر حکومت کی کارکردگی بہتر ہوتی تو خلق خدا پانی اور بجلی کے لئے سڑکوں پر کیوں نکل آئی ہے؟ اورکیوں ان کے دکھوں اور تکالیف کا مداوا نہیں ہوتا؟ اس کا علاج کیا ہے، صوبائی حکومت کو خود اپنا احتساب کرتے ہوئے اس کا جواب دینا چاہئے۔ گورنرراج سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی، صرف وہ عناصر گورنرراج سے خوف زدہ ہیں جنہوںنے کرپشن کے ذریعے دولت کمائی ہے، جمع کی ہے اور پاکستان کا قیمتی سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا ہے، یہی عناصر گورنر راج کے نفاذ سے قبل واویلا مچا رہے ہیں۔