گذشتہ دنوں میں نے قارئین کرام سے وعدہ کیا تھا کہ میں تفصیل کے ساتھ سری لنکا میں اپنی مصروفیات کے بارے میں ضرور لکھوں گا، چنانچہ اس کالم میں سری لنکا سے متعلق خیالات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ میں اس خوبصورت جزیرہ نما ملک میں دس بارہ مرتبہ جا چکا ہوں۔ سارک کانفرنس کے علاوہ کئی کانفرنسوںمیں شرکت کا اعزاز حاصل کر چکا ہوں جس میں غیر وابستہ ملکوں کی تحریک کی رپورٹنگ بھی شامل تھی۔ جیسا کہ پاکستان کے علاوہ اس خطے کے باشعور افراد جانتے ہیں کہ سری لنکا میں 2009ء کے بعد سے خانہ جنگی کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ یہ خانہ جنگی تقریباً 25سال تک جاری رہی جس میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم لوگوں کے علاوہ تامل ٹائیگرز (علیحدگی پسندگروہ) کے جنگجو بھی مارے گئے۔ خانہ جنگی کو ختم کرانے میں سری لنکا کے سابق صدر راجہ پاکسی کا اہم کردار ہے۔انہوں نے اس مسئلہ کا پہلے سیاسی بنیادوں سے حل نکالنے کی کوشش کی ،لیکن جب سیاسی کوششیں ناکام ہوگئیں تو پھر انہوںنے فوج کی مدد سے تامل ٹائیگرز کا صفایا کردیا، ان کی قیادت ماری گئی اور جوباتی بچے تھے، انہیں یا تو قید کرلیا گیا ہے یاپھر وہ بھارت کی ریاست تامل ناڈو میں پناہ گزیں ہوگئے ہیں۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ شمال میں واقع جافناگیا تھاجہاں اس وقت مکمل امن بحال ہوچکا ہے۔ سری لنکن فوج اور تامل ٹائیگرز کے درمیان اس جگہ سخت جنگ لڑی گئی تھی۔ تامل ٹائیگرز کی فوجی اور مالی مدد بھارت سے آرہی تھی تامل ناڈو کی موجودہ وزیراعلیٰ جے للیتانے تامل ٹائیگرز کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ان کے لئے سمندری راستہ کھول دیا تھا، اور وہ بہ آسانی چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ سری لنکا میں بم دھماکے ، قتل اور بھتہ خوری کرکے واپس چلے جاتے تھے۔ علیحدگی پسندوں کی تخریبی کارروائیوں کی وجہ سے سری لنکا میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب سری لنکن یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ جافنا علیحدہ ہوجائے گا، اور بعد میں تامل ناڈو کا حصہ بن جائے گا، لیکن سری لنکا کی فوجی اور سیاسی قیادت نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ایسا نہیں ہونے دیاجائے گا، اور پھر تامل ٹائیگرز کے خلاف 2008ء میںایک فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں تامل ٹائیگرز کی پوری قیادت کا صفایا کردیا گیا۔ بیشتر جنگجوئوں نے ہتھیار ڈال کر پر امن زندگی گزارنے کا عہد کیا ہے۔ اس کے بعد 2009ء میں سری لنکا میں خانہ جنگی کا مکمل طورپر ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پاکستان نے اس ضمن میں سری لنکن فوج کی بہت زیادہ مددکی تھی جس کا اعتراف سری لنکا کے عوام اور سیاست دان بھی کرتے ہیں۔
امن کے قیام کے بعد اس وقت سری لنکا میں تقریباً ہر سال دس لاکھ سیاح آتے ہیں اور یہاں کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ یہاں کے ساحلوں پر کچھ دن قیام کرتے ہیں۔ غوطہ خوری کے لئے بھی سری لنکا کے بعض ساحل بہت مشہور ہیں۔ کولمبو میں نائٹ کلب کھل چکے ہیں اور اس کے ساتھ مساج سینٹرز بھی۔ تھری اسٹار ہوٹلوں میں سیاحوں کو بڑی مشکل سے جگہ ملتی ہے، فائیواسٹاز ہوٹلوں میں قیام کے لئے پہلے سے بکنگ کرانا لازمی ہے ۔ ہر قسم کا کھانا بہ آسانی مل جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق مہنگائی کچھ زیادہ ہے لیکن ہر شخص مطمئن نظر آتا ہے۔عورتوں، مردوں دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ رہتی ہے۔ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ ملک پچیس سال تک خانہ جنگی کا شکار رہا تھا، جس کی وجہ سے اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی لیکن سری لنکن فوج اور سیاسی قیادت کے مابین موثر رابطے کی وجہ سے معیشت کو ازسرنو اس کے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔
عوامی جمہوریہ چین نے سری لنکا کی بہت زیادہ مدد کی ہے۔ سری لنکن معیشت کو بحال کرنے کے لئے چین نے راجہ پاکسی کی سابق حکومت کے ساتھ مل کر بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کئے تھے جو بے روزگاری کو ختم کرنے میں مدد گار ثابت ہوئے ہیں؛ تاہم ایک دو پروجیکٹ ایسے بھی ہیں جو اس وقت سری لنکن حکومت کے لئے بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ سیاسی قیادت انہیں فعال بنانے کے سلسلے میں چین کی دوبارہ مدد حاصل کررہی ہے، تاکہ سری لنکن اکانومی میں ان کی افادیت کو بحال کیا جاسکے۔ میری موجودگی میں سری لنکن پارلیمنٹ کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتیں مہم چلا رہی تھیں اور مطالبہ کررہی تھیں کہ اس اسمبلی کو تحلیل کرکے دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ میرے واپس پاکستان آنے کے بعد معلو م ہوا ہے کہ سری لنکن پارلیمنٹ تحلیل کردی گئی ہے، جبکہ پارلیمنٹ کے لئے دوبارہ انتخابات اس سال اگست میں متوقع ہیں۔ سابق صدر راجہ پاکسی دوبارہ انتخابات جیتنے کے لئے خاصے سرگرم نظر آرہے ہیں اور ہم خیال سیاسی جماعتوں کے تعاون سے ایک مشترکہ محاذ بنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
سری لنکا کے عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں تاہم وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان سری لنکا سے زیادہ سے زیادہ مال خریدے۔ اس وقت تجارتی فائدہ پاکستان کو مل رہا ہے، اس لئے اس دوطرفہ تجارت کو بیلنس کرنے کے لئے سری لنکا کی مصنوعات جس میں چائے، کوکونٹ، ہربل ادویات اور ہیرے جواہرات شامل ہیں، پاکستان درآمد کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 100 ملین ڈالر کا دوطرفہ خسارہ ہے جس کو دونوں طرف کے تاجر باہمی رابطوں کے ذریعہ بہ آسانی پُر کرسکتے ہیں۔ مجھے پاکستانی سفارت خانے کے پریس اتاشی جناب دائود احتشام نے بتایا کہ پاکستانی تاجر سری لنکا کی طرف کم رجوع کرتے ہیں حالانکہ یہاں پاکستانی مصنوعات کی خاصی مانگ ہے، ہر چند کہ پاکستانی تاجر سری لنکا سے چائے ، کوکونٹ، وغیرہ درآمد کررہے ہیں، لیکن اب اس کے حجم کو بڑھانا ضروری ہے، نیز پاکستانی سیاحوں کو سیاحت اور سیرو تفریح کے لئے سری لنکا آنا چاہئے جس کے عوام خصوصیت کے ساتھ خواتین کی مسکراہٹ اور ان کی مہمان نوازی ساری دنیا میں مشہورہے۔ پاکستان کے موجودہ سفیر اور پریس اتاشی دائود احتشام سری لنکااور پاکستان کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے سلسلے میں دن رات کو شاں ہیں۔ بھارت یہاں بھی پاکستان اور چین کے خلاف ''را‘‘ کے ذریعہ خاصا سرگرم ہے، لیکن اسے عوام کی پذیرائی نہیں مل سکی‘ جس کی وجہ سے وہ پاکستان اور چین کے خلاف اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جناب راحیل شریف نے ہمارے سری لنکا جانے سے قبل وہاں کا تین روز کا سرکاری دورہ کیا تھا، اپنے قیام کے دوران انہوں نے سری لنکن صدر کے علاوہ اہم شخصیات سے ملاقاتیں کی تھیں۔ راحیل شریف کے دورے سے سری لنکا اور پاکستان کے درمیاں دفاعی شعبوں میں تعاون کو مزید بڑھانے کے سلسلے میں کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے‘ جو آئندہ دونوں ملکوں کے عوام کے لئے تقویت کا باعث بنیں گے۔ پاکستان سری لنکن فوجیوں کو جدید طریقے سے تربیت دے رہا ہے، جو اس خطے میں امن کے قیام میںاہم کردار ادا کریں گے۔ وقت کی کمی کے باعث وائلڈ لائف پارک نہیں جاسکا لیکن ہاتھیوں پر سواری کرکے بہت مزہ آیا۔