امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ

چودہ جولائی عالمی برادری کے لئے انتہائی اہم دن تھا۔ اس دن امریکہ سمیت دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں ''فائیو پلس ون‘‘ اور ایران کے مابین جوہری معاہدہ طے پاگیا‘ جس کے نتیجے میں ایران ایٹم بم بنانے سے متعلق تمام کوششوں سے دستبردار ہوگیا۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو اس جوہری معاہدے سے متعلق تمام سہولتوں کے جائزے‘ تنصیبات کے معائنے اور جانچ پڑتال کی آزادی ہوگی۔ امریکی صدر نے معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ اسرائیل اور بعض عرب ممالک نے سمجھوتے کی مخالفت کی۔ ایرانی قوم نے معاہدے کی حمایت میں ریلیاں نکال کر خوشیوں کا اظہار کیا۔ بارک اوبامانے اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر امریکی کانگریس نے اسے مسترد کرانے کی کوشش کی تو وہ ویٹوکا استعمال کرکے اسے بچانے کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں ری پبلکن پارٹی اکثریت میں ہے، جس کے بعض ارکان نے معاہدے کی شدید مخالفت کی۔ جب یہ معاہدہ کانگریس سے منظوری کے لئے ایوان میںپیش کیاجائے گاتو یہی ارکان اسے مسترد کرانے کی کوشش کریں گے۔ 
معاہدے پر عمل کا آغاز ہونے کے بعد ایران پر عائد پابندیاں بتدریج ختم ہو جائیں گی‘ جس سے ایران کو بہت فائدہ پہنچے گا، ایران پر موجودہ اقتصادی پابندیاں اُس کے نیوکلیئر پروگرام کے سلسلے میں عائد کی گئی تھیں۔ پابندیاں عائد کرنے والوں میں امریکہ کے علاوہ اقوام متحدہ اور یورپی یونین شامل تھے۔ اندازہ ہے کہ پابندیوں کے اٹھتے ہی ایران کو فوری طورپر 15ارب ڈالر کا فائدہ پہنچے گا جو اس کی ڈوبتی معیشت کو بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔ ایران اور جرمنی سمیت دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کے درمیان 20ماہ کے مشکل مذاکرات کے ذریعہ یہ معاہدہ کامیابی سے ہمکنارہوا؛ حالانکہ مخفی مذاکرات گزشتہ تیرہ سال سے جاری تھے؛ بسااوقات ایسے مواقع بھی آئے جب یہ محسوس کیا جانے لگاکہ یہ مذاکرات ناکام ہوجائیں گے۔ ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں سخت کردی جائیں گی۔ اسی دوران اسرائیل کی انتہاپسند حکومت نے کئی بار ایران کو دھمکی دی تھی کہ وہ اس کے جوہری پروگرام پر بمباری کرکے اسے تباہ کر دے گا‘ جس طرح اس نے عراق کا کیا تھا۔ گزشتہ دوسال سے مذاکرات میں خاصی پیش رفت ہو رہی تھی جس میں ایران کے صدر حسن روحانی کا کردار اہم ہے۔ نیز آیت اللہ خامنہ ای نے بھی اس معاہدے کی حمایت کی، تب کہیں جاکر یہ معاہدہ کامیاب ہوا۔ 
اس تاریخی معاہدے کے بعد ایران پر گزشتہ دس سال سے عائد اقتصادی پابندیاں بتدریج ختم ہو جائیں گی؛ تاہم گزشتہ تین سالوں کے دوران ایران کی معیشت خاصی نچلی سطح پر پہنچ چکی تھی۔ تیل کی بر آمد اور ایران کے لئے ضروری اشیا کی درآمد پر‘ ان پابندیوں کے مضر اثرات مرتب ہوئے تھے۔ اس معاہدے کے بعد ایران کی تنہائی بھی ختم ہوسکے گی جبکہ یورپی یونین سمیت ترقی یافتہ ممالک ایران کے ساتھ تجارت کو بڑھانے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کریں گے۔ مزیدبرآں اب ایران عالمی برادری کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور داعش کی سرگرمیوں کے خلاف اپنا اہم کردار ادا کرسکے گا۔ ایران آٹھ کروڑ آبادی کے ساتھ مشرق وسطیٰ کا دوسرابڑا ملک ہے اور تعلیم کا تناسب 90فیصد۔ تعلیم یافتہ ایرانی جدید دنیا کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بے پناہ محب وطن ہیں۔ 
ایران کے ساتھ اس جوہری سمجھوتے سے امریکہ کی ڈپلومیسی کو خاصی تقویت ملی ہے، ماضی میں امریکہ ''طاقت‘‘ کے بل بوتے پر معاہدے کراتا رہا ہے اور ضرورت پڑنے پر طاقت کا استعمال بھی کرتا تھا، لیکن اُس نے ایران کی حد تک سفارت کاری کی راہ اختیار کرکے طاقت کے استعمال کے ماضی کے فلسفے کو رد کردیا ہے، سفارت کاری کے ضمن میں امریکہ کی یہ دوسری فتح ہے، اس سے قبل اُس نے کیوبا کے ساتھ بات چیت کے ذریعے سفارتی تعلقات بحال کئے جسے ساری دنیا نے سراہا۔ خصوصیت کے ساتھ لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک نے امریکہ اور کیوبا کے درمیان دوستی کا خیر مقدم کیا۔ 
پانچ بڑی طاقتوں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور چین کے ساتھ جرمنی (جنہیں فائیو پلس کا نام دیا گیا) اور ایران کے درمیان ہونے والے اس نیوکلیئر معاہدے سے پاکستان کو بھی بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ خصوصیت کے ساتھ جب ایران پر اقتصادی پابندیاںہٹ جائیں گی، تو پاک ایران گیس پائپ لائن کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں خودبخود دور ہو جائیں گی۔ ایران اپنے حصے کی پائپ لائن پہلے ہی تعمیر کر چکا ہے جبکہ پاکستان کو ابھی اپنی طرف کی تعمیر کرنا ہے، ایران نے اس منصوبے کے لئے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی امداد کی بھی پیش کش کی تھی۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ فوری طورپر جوہری سمجھوتے کی روشنی میں اپنا ہوم ورک تیار کرلے تاکہ گیس پائپ لائن منصوبے کے علاوہ ایران کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات بھی کیے جا سکیں۔ ایران اور پاکستان کی بلوچستان کے راستے چھوٹی موٹی تجارت ہوتی رہتی ہے۔ ایران بلوچستان کے بعض علاقوں کو بجلی بھی فراہم کرتا ہے، بلکہ اس نے حال ہی میں 3ہزار میگاواٹ بجلی پاکستان کو دینے کی پیش کش کی ہے۔ حکومت کو اس پیش کش پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ ایران کو پاکستان سے بعض شکایتیں ہیں خصوصیت کے ساتھ بعض دہشت گرد تنظیموں سے متعلق جو بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے قتل میں ملوث ہیں اور جن کے قاتلوں کو کبھی گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ ہزارہ کمیونٹی ایک پر امن کمیونٹی ہے جو بلوچستان کی اکانومی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے میں بھی ہزارہ کمیونٹی کا اہم کردار ہے، ان کے خلاف دہشت گردی سے خود پاکستان کا قومی اتحاد مجروح ہواہے۔ جبکہ ایران ان واقعات کی مذمت بھی کرتا ہے اور احتجاج بھی۔ ایران کا مطالبہ ہے کہ ایسی تنظیموں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے تاکہ ایران پاکستان دوستی کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہ سکے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں