بھارت نے گذشتہ کئی سالوں کے دوران دو متضاد شخصیتوں کو جنم دیا ہے، پہلی شخصیت ڈاکٹر عبدالکلام کی ہے، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ تامل ناڈو میں ان کے آبائی گائوں میں دفن کیا گیا ہے، دوسری شخصیت بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی کی ہے جن کو مسلمانوں کے خلاف عداوت اوربیررکھنا ورثے میں ملا ہے۔ نریندرمودی منفی سوچ کے حامل ہیں وہ ہر وقت مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی تراکیب سوچتے رہتے ہیں، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی ان دو نامور شخصیتوں میں کامن فیکٹر کیا ہے؟ ڈاکٹرعبدالکلام کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا، انہوںنے بڑی مشکل سے تعلیم حاصل کی، لیکن چونکہ ان میں تعلیم کے ذریعہ آگے بڑھنے کا غیر معمولی جذبہ تھا اور سوچ بھی مثبت تھی، اس لئے ہر قدم پر قدرت نے ان کا ساتھ دیا اور وہ بھارت کی ایک غیر معمولی شخصیت بن کر ابھرے، انہیں بھارت کا میڈیا اور ان کے ساتھی سائنس داں Missile man کے نام پکارتے تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے بھارت کے دفاعی شعبے میں جدید میزائل بنائے بلکہ خلائی پروگرام کو بھی بہت آگے تک لے گئے، یہ سفر ابھی تک جاری ہے۔ ڈاکٹر عبدالکلام 2002-2007ء تک بھارت کے صدر رہے ، انہیں بھارت کا گیارہواں صدر بنانے میں لوک سبھا کی تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔ پانچ سال بڑی سادگی کے ساتھ ایوان صدر میں عزت اور وقار کے ساتھ رہے اور
حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ بھارت کا پہلا ایٹمی دھماکہ جو 1974ء میں پوکھراں میں ہوا تھا، مئی 1998ء بھارت کا دوسرا ایٹمی دھماکہ ان کی نگرانی میں کیا گیاتھا، بحیثیت صدر انہوں نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں بی جے پی اور کانگریس کو پڑوسی ممالک خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی تلقین کرتے رہے اور کبھی بھی پاکستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔ شنید ہے کہ سابق وزیراعظم واجپائی کو انہوںنے ہی مشورہ دیا تھا کہ وہ بس کے ذریعہ پاکستان جائیں اور پاکستان کی سیاسی قیادت کو یقین دلائیں کہ بھارت پاکستان کو ایک حقیقت سمجھتا ہے اور سمجھتا رہے گا۔ مینار پاکستان پر آکر واجپائی نے ایسا ہی کیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالکلام کی مسلم تاریخ پر گہری نگاہ تھی، اپنے ایک لیکچر میں جہاں وہ دیگر اہم شخصیات کے خیالات کا حوالہ دیتے تھے، وہیں انہوںنے حضرت عمرؓ سے متعلق حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے یروشلم میں داخل ہونے کے بعد جانا کہ تمام انسان برابر ہیں۔ دوسروں کو اپنے طریقے کی پیروی کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے، تم وہی کچھ حاصل کرو گے جو تمہاری قسمت میںلکھ دیا گیا ہے،صرف اللہ ہی سب کا حاکم ہے۔
ڈاکٹر عبدالکلام سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کتابوں کا کیڑا تھے۔ پڑھنے اور لکھنے کا بے حد شوق تھا، ایوان صدر میں سرکاری کام کرنے کے بعد وہ سائنس اور لٹریچرسے متعلق تازہ تر ین کتابوںکا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ وزیراعظم کو بھی ان کتابوں کے مطالعے کا مشورہ دیتے تھے، وہ اجمیر شریف کے عظیم صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی (غریب نواز سلطان ہند) کے حالات اور واقعات سے بہت متاثر تھے، ان کا یہ جملہ اکثر دہرایا کرتے تھے ''ایسا شخص سب سے زیادہ اچھے کردار کا حامل ہوتا ہے جو غربت میں باوقار ، بھوک میں فاقے، غم میں خوش اور عداوت میں دوستانہ رویے کا مالک ہو‘‘۔ دراصل ڈاکٹر عبدالکلام اگر نامور سائنس داں نہیں ہوتے تو وہ اپنی مثبت سوچ اور انسانی دوستی کے حوالے سے ایک صوفی ضرور بن جاتے ، ان کے جنازے میں ساڑھے تین لاکھ افراد نے شرکت کی تھی جس میں وزیراعظم کے علاوہ مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل تھے۔
نریندرمودی بھی غربت اور افلاس کی پیداوار ہیں، سات سال کی عمر سے وہ اپنے والد کے ساتھ گجرات میں چائے بیچا کرتے تھے، لیکن انہیں بھی پڑھنے کا شوق تھا، اسی لئے محنت مشقت کے دوران ہی انہوںنے کسی نہ کسی طرح اپنی تعلیم جاری رکھی، میٹرک کرنے کے بعد ان کی ذہانت دیکھنے کے بعد آر ایس ایس نے ''گود‘‘لے لیا، اور اپھر انہوںنے چائے بیچنی بندکردی، اور تعلیم کے ساتھ اس انتہا پسند تنظیم میں شامل ہوکر مسلمانوں کو گجرات میں معاشی طورپر تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے تھے۔ آر ایس ایس ان کی اس سلسلے میں رہنمائی کرتی رہی، بلکہ ان کا ایسا برین واش کیا کہ وہ پھر مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات قائم نہیں کرنا چاہتے تھے، جب وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے تعاون سے گجرات کے وزیراعلیٰ بنے تو ان کو مسلمانوں کے خلاف کام کرنے کا نادر موقع مل گیا۔ 2002ء میں (گجرات) میں مسلمانوں کا منظم قتل عام ان کی ہدایت پر کیا گیا، انتہا پسند ہندوں نے تقریباً تین ہزار مسلمان ،عورتوں، بچوں، بوڑھوں کو بڑی بے دردی اور بے رحمی سے قتل کیا بلکہ بعض نامور شخصیات کی قبروں کو مسمار کرکے ان کے ڈھانچوں کو سڑکوں پر پھینک دیا۔ بھارت کے تمام با شعور صحافی ، دانشور اور سول سوسائٹی کے ارکان اس حقیقت سے واقف ہیں کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے پیچھے نریندرمودی کا ہاتھ تھا، ان کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالتوں میں مقدمات بھی درج کرائے تھے، لیکن سپریم کورٹ نے انہیں بری کردیا تھا، کہا جاتا ہے کہ ججوں پر بی جے پی کے اثرورسوخ کی وجہ سے انہیں بری کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عبدالکلام اور نریندرمودی میں غربت اور محرومی کا مشترکہ عنصر تھا۔ ڈاکٹر عبدالکلام سائنس دان ہونے کے علاوہ انسان دوست اور مثبت سوچ کے حامل تھے، جبکہ نریندرمودی انتہا پسند ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ بھارت کے تمام مسلمانوں کو ہندو بنالے، آج بھارت میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف جو انتہا پسندانہ سوچ پائی جاتی ہے اس کا ذمہ داربی جے پی اور آر ایس ایس کا نمائندہ وزیراعظم مودی ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے کوئی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کررہا۔ اگر نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ کے دوران بھارت اور پاکستان کے مابین کوئی مسلح تصادم ہوجاتا ہے تو تعجب نہیں ہوگا، کیونکہ یہ شخص اکھنڈ بھارت کا زبردست حامی ہے اور پر چارک بھی! تاہم نریندرمودی نے پاکستان کے خلاف اگر کسی قسم کی مہم جوئی کی تو اس کے نتائج خود بھارت کے بکھرجانے کی صورت میں نمودار ہوں گے، اس لئے جنوبی ایشیا کی بقا جنگ میں نہیں بلکہ دوستی میں ہے جیسا کہ دونوں طرف کے باشعور دانشوروں کی سوچ ہے۔