کیا کشکول گدائی توڑ دیا گیا ہے؟

حکومت پاکستان نے ایک بار پھر منت سماجت اور خوشامد کرکے آئی ایم ایف سے 52کروڑ ڈالر کا قرضہ حاصل کرلیا ہے۔ یہ خبر سرکاری ٹی وی پر شہ سرخیوں سے پیش کی گئی اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ حکومت نے قرضہ لے کر بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو یہ پہلی مرتبہ یہ قرضہ نہیں دیا بلکہ ماضی میں بھی حکومتیں اپنا بجٹی خسارہ پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر ڈونرز کے پاس کشکول گدائی لے کر جاتی تھیں، ان کو کچھ مل جاتا تھا اور حکومتیں مطمئن ہو کر مملکت کے کاروبار میں مصروف ہوجاتی تھیں۔ اس طرح ہماری معیشت کا دارومدار اور انحصار پہلے اور اب بیرونی قرضوں پر ہے۔ یہ بیرونی قرضے مملکت کی خودمختاری کو متاثر کررہے ہیں لیکن حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ قرضہ لے کر قرضہ اتارو، یہ رویہ موجودہ حکومت کے علاوہ ماضی کی حکومتوں کا بھی رہا ہے۔ صرف ایک مرتبہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیا گیا تھا؛ بلکہ معیشت کی شرح نمو کو بڑھا کر اور معیشت سے متعلق اندرونی وسائل کو زیراستعمال لاکر آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کیا گیا تھا۔ تاہم کشکول گدائی توڑنے کا یہ عرصہ انتہائی قلیل تھا۔ جب پرویز مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو پی پی پی کی حکومت برسراقتدار آئی جس کے رہنما آصف علی زرداری تھے۔ انہوں نے کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم کرکے حکومت کے تمام اداروں کو تباہ وبرباد کر دیا۔ اس وقت میاں نواز شریف کی حکومت ہے، اس حکومت کو دھرنے کے اختتام کے بعد اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد بظاہر کوئی چیلنج نظر نہیںآرہا، کرپشن بھی کم ہے، لیکن میاں نواز شریف پی پی پی دور کے انتہائی کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کررہے، بلکہ گریزا ں نظر آرہے ہیں۔ مثلاً ٹی ڈی اے پی میں دس ارب کی تصدیق شدہ کرپشن جس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم امین فہیم شامل تھے، وہ نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں، بلکہ ان کے خلاف ابتدائی کارروائی بھی نہیں ہوئی۔ دراصل میاں صاحب نے زرداری صاحب سے مفاہمت کی سیاست کرکے نہ صرف اپنے نام اور مقام کو آلودہ کیا بلکہ ابھی تک اس ''مفاہمت ‘‘کے سحر سے نہیں نکلے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ 2008-2013ء کے دوران اس مملکت کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیار کیا گیا تھا اور ایک ایجنڈے کے تحت ''پاکستان کھپے‘‘ والوں نے پاکستان نہ کھپے بنادیا تھا۔ پی پی پی کے ساتھ اس معاشی ومعاشرتی استحصال میں ان کے اتحادی بھی شامل تھے، جن کے خلاف اب بلا امتیاز کارروائیاں کی جارہی ہیں اور کامیابی سے جاری ہیں۔ 
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ کسی بھی حکومت نے خصوصیت کے ساتھ گزشتہ دس برسوں کے دوران سنجیدگی سے اس ملک کے اندر پائی جانے والی خامیوں( جن کا تعلق اچھی طرز حکمرانی سے تھا ) توجہ نہیں دی گئی۔ بیڈگورننس کے بد نما چہرے کو مزید داغ دار بنانے میں نوکر شاہی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، جن کی اکثریت نے وفاق اور صوبے کی سطح پر وزرا اور دیگر عوامی نمائندوں کو کرپشن کی طرف مائل کیا اور آئین سے انحراف کرنے کا گرُ سکھایا بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ آج کا پاکستان میثاق جمہوریت کا خمیازہ بھگت رہا ہے بلکہ آئندہ بھی بھگتا رہے گا کیونکہ میاں نواز شریف صاحب مفاہمت اور میثاق کے مائنڈ سیٹ سے ہنوز نکل نہیں پائے‘ بلکہ لوٹنے والوں اور ملک کا استحصال کرنے والوں کے لئے نرم گوشہ رکھ رہے ہیں۔ شاید میاں صاحب اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک کرپشن کا کینسر ہے جس نے قانونی، تہذبی اور اخلاقی اقدار کو بری طرح تباہ وبرباد کرکے رکھ 
دیا ہے۔ اس معاشرتی تباہی سے سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہوئے ہیں۔ تعلیمی سند ہونے کے باوجود ملازمتوں کا حصول جوئے شیر لانے کا مترادف ہے کیونکہ ہر سطح پر نوکریاں فروخت کی جارہی ہیں اور ان قابل ، لائق اور فاضل نوجوانوں کو ملازمتیں دینے سے انکار کیا جارہا ہے جن کے والدین کے پاس رشوت دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ یہ المیہ ثانوی سطح پر اب بھی موجود ہے جبکہ حکومت صنعتی ترقی کو فروغ دے کر ملازمتیں پیدا کرنے سے ابھی تک ناکام نظر آرہی ہے۔ جرائم میں اضافے کو طاقت کے استعمال سے کسی حد تک روکا جاسکتا ہے، جیسا کہ کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میںہورہا ہے، لیکن اس کا متبادل کیا ہے؟ اس کا متبادل نجی اور سرکاری شعبوں میں میرٹ کی بنیادپر ملازمتیں دینے سے مشروط ہے ؛ تاہم حکومت کوشش کررہی ہے کہ کسی طرح معیشت کی شرح نمو میں اضافہ کیا جائے‘ لیکن رفتار بہت سست ہے، صرف بیرونی زرمبادلہ اور اسٹاک مارکیٹ پر بھروسہ کیا جارہا ہے جس کی حقیقت یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ کا اتار چڑھائو کابراہ راست اکانومی کی شرح نمو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ تمام حکومتیں اس ناخواندہ معاشرے کو اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والی ترقی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ ملک کی معیشت مضبوط ہے اور ترقی کررہی ہے۔ 
حکومت خوشی کے شادیانے بجارہی ہے کہ آئی ایم ایف سے 52کروڑ ڈالر کا قرضہ مل گیا ہے، لیکن آئی ایم ایف نے اصلاحات لانے سے متعلق جو احکامات جاری کئے ہیں، ابھی تک اس ضمن میں کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ کیا نئے امیر وکبیر بننے والوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا گیا ہے؟ کم از کم اس وقت پورے پاکستان میں ایسے افراد موجود ہیں جو بہ آسانی ٹیکس دے سکتے ہیں، لیکن انہیں جان بوجھ کر چھوٹ دی جارہی ہے۔ ٹیکس جس میں جنرل سیلز ٹیکس بھی شامل ہے، صرف عوام سے وصول کیا جارہا ہے جبکہ انہیں کسی قسم کی سہولتیں یا مراعات حاصل نہیں ہیں۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کے ساتھ کرپشن اور نوکرشاہی کی نااہلی کی وجہ سے معاشرہ آہستہ آہستہ ایک بے سمت بھیڑ میں بدلتا جارہا ہے۔ یہ صورتحال آئندہ چند سالوں میں ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔ پاکستان کی حکومت چین کے ساتھ اپنی دوستی کا بہت دم بھرتی ہے، لیکن چین کے سیاسی نظم و ضبط کو اختیار کرنے سے گریزاں ہے، جہاں کرپشن کرنے والوں کا فوری فیصلہ کرکے انہیں گولیوں سے اڑادیا جاتا ہے۔ ادھر پاکستان میں کرپشن کرنے والوں سے لین دین کرکے انہیں باعزت بری کردیا جاتا ہے۔ کیا مملکت کا کاروبار اس طرح چل سکتا ہے؟ نظم و ضبط کے علاوہ سخت اور بے رحمانہ احتساب وقت کی ضرورت ہے‘ اسی میں ملک کی بقا کا راز مضمر ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں