بھارت اس خطے میں اپنی بالادستی چاہتا ہے؟

بھارت اور پاکستان کے درمیان مشیروں کی سطح پر ہونے والے مذاکرات ایک بار پھر منسوخ ہوگئے ہیں۔ آئندہ یہ مذاکرات کب ہوں گے، اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کے سلسلے میں پیشگی مطالبات رکھ رہا ہے؛ مثلاً یہ کہ کشمیر کا مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا، پاکستان کے مشیر خارجہ بھارت میں کشمیری رہنمائوں سے ملاقات نہیںکریں گے، صرف دہشت گردی سے متعلق بات چیت ہوسکتی ہے۔ بھارت کی جانب سے اس قسم کے مطالبات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ بھارت پاکستان کو ڈکٹیٹ کرنا چاہتا ہے اور بزعم خود وہ اپنے آپ کو اس خطے کا رہنما سمجھ بیٹھا ہے۔ بھارت کے اس طرز عمل سے اب یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ اسے پاکستان سے بات چیت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی خطے میں امن کے قیام سے؛ بلکہ بھارتی وزیراعظم دونوں ممالک کے درمیان حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں، یعنی کشیدگی برقرار رہے، جو بعد میں کسی بھی لمحے مسلح تصادم میں بدل سکتی ہے۔ یہی نریندرمودی کا اصل ایجنڈا ہے۔ لائن آف کنٹرول اور انٹر نیشنل ورکنگ بائونڈری پر کسی اشتعال کے بغیر مسلسل گولہ باری کا واحد مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان کو مشتعل کرکے جنگ کاجواز پیدا کیا جائے جو دونوں ملکوں کے لئے تباہی وبربادی کا باعث بنے گا۔ 
امریکہ بہادر کو مشیروں کی سطح پر بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے نہ ہونے کا بظاہر خاصا دکھ ہے۔وائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا ہے کہ مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں، کشمیر دونوں ملکوں کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔امریکہ کی کشمیر سے متعلق اس واضح پالیسی پر بھارت ناخوش ہے، لیکن حقیقت یہی ہے جس کا اظہار حال ہی میں امریکی حکومت کی طرف سے کیا گیا ہے۔ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی دہائیوں سے تنائو کا باعث بنا ہوا ہے۔اس مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج موجود ہے جس نے وہاں کی مسلم آبادی کو طاقت اور تشدد کے ذریعے یرغمال بنا رکھا ہے۔ہر روز ان پر بہیمانہ مظالم روا رکھے جاتے ہیں،لیکن اس کے باوجود کشمیری عوام میں آزادی اور پاکستان سے محبت میںکوئی کمی نہیں آئی۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جب تک کشمیر کے عوام کی رائے معلوم نہیں کی جاتی اس وقت تک یہ مسئلہ متنازعہ ہی رہے گا۔بھارت کی سات لاکھ فوج کی موجودگی اور تشدد کے ذریعے بھارت کشمیری عوام کی آرزوئوں اور خواہشات کو دبانا چاہتا ہے؛ حالانکہ وہ اس میں نہ تو ماضی میں کامیاب ہوا اور نہ اب ہوسکے گا۔اب تک ایک لاکھ کشمیری عوام اپنی آزادی اور استصواب رائے کا حق استعمال کرنے کے لئے قیمتی جانوںکا نذرانہ پیش کرچکے ہیں،اس کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنے ملک میں ضم نہیں کرسکا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا امکان ہے۔ 
میںکشمیر کے بارے میں مہاراجہ ہر ی سنگھ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں جس نے بھارت کے ساتھ ''الحاق‘‘ کے سلسلے میں لکھے گئے خط میں بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ ''الحاق‘‘ کے سلسلے میں جب تک کشمیر ی عوام کی رائے معلوم نہیں کرلی جائے گی اس وقت تک یہ الحاق مکمل نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اس کی حیثیت عارضی رہے گی۔گویا کشمیر کے آخری حکمران نے بھی کشمیر کو ایک متنازعہ مسئلہ سمجھا اور صراحت سے تسلیم کیا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر اس کا کوئی حل قابل قبول نہیں ہوگا۔اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرارداد میں بھی اسی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت وہ تمام علاقے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ان کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا اور ہو بھی گئے ماسوائے کشمیر کے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، لیکن بھارت کی چال بازیوں کی وجہ سے تقسیم ہند کا منصوبہ کشمیر کی حد تک نامکمل رہا اور آج تک نامکمل ہے۔ 
جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھا، بھارت نریندر مودی کی انتہا پسند قیادت کشمیر کے مسئلے پر بات کرنے سے گریزاں ہے۔ اس کی ایک حالیہ وجہ یہ بھی کہ روس کے شہر اوفا میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے اور نواز شریف کے درمیان ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تھا اس میں کشمیر سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔بھارت نے اسی اعلامیہ کو بنیاد بنا کر مشیروں کے درمیان مذاکرات اور کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کرنے سے انکار کیا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے اوفا میں جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میںکشمیر کے مسئلے کو نظر اندازکرکے سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔اس سلسلے میں وزارت خارجہ کے ایک اہم افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ اوفا میں دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات محض رسمی تھی۔یہ ملاقات شنگھائی تنظیم کی سائیڈ لائن پر ہوئی تھی، اس لئے مشترکہ اعلامیے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اگر جاری کر ہی دیا گیا تو اس میں کشمیر کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا جو ان دونوںملکوں کے درمیان بنیادی تنازع اورکشیدگی کی اصل جڑ ہے۔انہوں نے کہا یہ ہماری اپنی سفارتی غلطی تھی جس کا فائدہ بھارت نے اٹھایا ہے۔ تین وفعہ وزیراعظم بن کر بھی میاں صاحب کو اس بات کا ادراک اور احساس نہیں ہوا کہ سفارت کاری میںاصل طاقت اور ویژن الفاظ کے استعمال کا ہوتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے مشترکہ اعلامیہ کو پڑھنا ہی گوارا نہیں کیا (ویسے بھی وہ کسی دستاویز کو غور سے نہیں پڑھتے) اور ساری ذمہ داری مشیروں اور اپنے حواریوں پر چھوڑ دی جوان کے ساتھ اوفاگئے تھے اور جنہوں نے مشترکہ اعلامیہ میںکشمیر کا ذکر نہ کرکے پاکستانی اورکشمیری عوام کے جذبات کومجروح کیا۔ 
دراصل پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس میں نہ تو حقیقی قیادت سامنے آئی اورنہ ہی وہ افراد اقتدار حاصل کرسکے جن کے پاس ایسا ویژن ہو جو سفارت کا ری کے پیچیدگیوں سے واقف ہوتے ہیں۔ میاں صاحب کے پاس اپنے کاروبارکو آگے بڑھانے کے سوا کوئی ویژن نہیں اور نہ ہی وہ ابھی تک بھارت کی چال بازیوں کو سمجھ سکے ہیں۔بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے سلسلے میں ان کے تمام تر اقدامات خطے میں بھارتی بالادستی کو قبول کرتے نظر آتے ہیں جنہیں پاکستان کے عوام ہرگز قبول نہیںکریں گے اور عسکری قیادت تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ میاں نواز شریف کا حال یہ ہے کہ انہیں اپنے ساتھیوں میں کوئی ایسا فرد نظر نہیں آرہا جسے وہ وزیر خارجہ بنا کر خود ملک کے دیگر معاملات پر توجہ دے سکیں۔ اگر وہ ایساکردیں تو پاکستان کی سفارت کاری بہت حد تک طاقت پکڑ سکتی اور بھارت کی خطے میں بالادستی کا خواب چکنا چور کرسکتی ہے، ورنہ سرنگ کے آگے روشنی بہت کم ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں