مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور پولیس کی زیادتیوں اور بربریت کے خلاف ایک بار پھر کشمیری نوجوان اپنے سیاسی ومعاشی حقوق کے لئے بیدار ہوکر ظلم کے خلاف لڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ بھارت کی وفاقی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت کے لئے یہ صورتحال انتہائی پریشان کن ہے۔یہ ثابت ہو رہا ہے کہ دونوں حکومتیں باہم مل کر طاقت اور تشدد کے ذریعے اس توانا تحریک ِبیداری کو کچلنے کے لئے ظلم کے تمام حربے استعمال کررہی ہیں ،لیکن ناکام نظر آرہی ہیں۔ کئی کشمیری نوجوان اب تک شہید ہوچکے ہیں ، لیکن محسوس ایسا ہورہا ہے کہ یہ تحریک آزادی کے طاقتور جذبوں اور عزائم کے ساتھ جاری رہے گی۔اس کی بڑی وجہ مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی کے علاوہ وادی کے مسلمانوں کی جملہ شکایتوں اور مسائل کا ازالہ کرنے میں ناکامی ہے۔ مزید برآں مفتی سعید نے اپنی وزارت کو بچانے کے لئے نریندرمودی کے غیر آئینی احکامات کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور پولیس اور فوج کو نہتے کشمیریوں پر بلا جواز بلاوجہ گولیاں چلانے اور قتل کرنے کا حکم صادر کردیا ہے۔عاشورہ محرم یعنی دس محرم کو مفتی سعید کی حکومت نے کرفیو نافذ کرنے کا حکم صادر کیا تھا، اور جلوس پر بھی پابندی عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن اس کے باوجود عزاداران حسین نے روایتی انداز میں جلوس نکالنے کی کوشش کی جسے بھارتی فوج نے طاقت کے ذریعے روکنے کی کوشش کی ، فائرنگ کی اور لاٹھی چارج بھی کیا، جس میںکئی نوجوان زخمی ہوگئے لیکن جلوس پھر بھی نکالا گیا۔ اس رویے کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے طول وارض میں حکومت کے خلاف سخت احتجاج کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بیشتر جگہوں پر اس وقت بھی کرفیو نافذ ہے۔مظاہرین نے پاکستانی پرچم بلندکئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے، وہ سب مودی اور مفتی سعید کی مسلم کش پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے تھے۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق پالیسی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ اس وقت بھی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مجاہدین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپیںجاری ہیں جس میں اب تک مستند اطلاعات کے مطابق ایک میجر کے علاوہ چار بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں بیداری کی لہر کو پاکستان سپانسرڈقرار دے رہی ہے، جبکہ حقیقت میں یہ تحریک خالصتاً مقامی ہے، جس کی اکثریت مسلمان نوجوانوںپر مشتمل ہے جو اپنے سیاسی، آئینی، اور معاشی حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم وبربریت کے خلاف ہونے والے مظاہرے اور جلسے جلوس اب پوری دنیا میں پھیل گئے ہیں۔ یوم سیاہ کے موقعہ پر لندن ، نیویارک ، فرانس اور جرمنی کے علاوہ جنوبی مشرق ایشیا کے بیشتر ممالک میںکشمیریوں نے اپنے حق رائے دہی اور بھارتی فوج کے ظلم کے خلاف مظاہرے کئے اور بھارتی حکومت پر استصواب رائے کرانے پر بھی زور دیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی اقوام متحدہ میں اس مسئلہ کو اٹھایا تھا ‘خصوصیت کے ساتھ امریکی صدر بارک اوباماسے اس اہم مسئلہ کو حل کرانے کی درخواست بھی کی۔ امریکہ کشمیر کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرانے پر زور دے رہا ہے، لیکن بھارت مذاکرات کے لئے تیار نہیںہے۔بھارت کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر اس کا داخلی مسئلہ ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ عالمی مسئلہ ہے اور دونوں ملکوں نے اس کو تسلیم بھی کیا ہے، خود امریکہ کو اس مسئلہ پر گہری تشویش ہے کیونکہ یہ مسئلہ کسی بھی وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان مسلح تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔ شملہ معاہدے کی رُو سے بھی بھارت اس مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کاپابند ہے جس میں کشمیری عوام کی مرضی کا شامل ہونا نہایت ہی ضروری ہے ، کیونکہ کشمیری عوام ہی مسئلہ کے اصل فریق ہیں، نیز اگر چند لمحے کیلئے یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کا داخلی مسئلہ ہے تو پھر وہاں سات لاکھ فوج کیا کررہی ہے؟ دراصل بھارت اس حقیقت کو فراموش کرچکا ہے کہ طاقت اور تشدد کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکتاہے، خصوصیت کے ساتھ اس صورت میں جبکہ اب تک مقبوضہ کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد مسلمان اپنی آزادی کے لئے شہید ہوچکے ہیں اور اب بھی ان کی لازوال قربانیوں کا سلسلہ جاری وساری ہے۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم چودھری عبدالماجد نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ کشمیر کے عوام بھارت کے ناجائز تسلط کو کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ عالمی برادری کویہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مقبوضہ کشمیر کا کبھی بھی بھارت کے ساتھ الحاق نہیں ہوا جبکہ بھارتی آئین کی شق 370کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی اختیارات حاصل ہیں، جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ مقبوضہ کشمیر اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے، یہ حیثیت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک کہ کشمیر کے عوام کی اس اہم مسئلہ پر رائے معلوم نہیں کرلی جاتی کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ نیز عالمی برادری کو یہ بات بھی تسلیم کرنی پڑے گی کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی قسم کی دہشت گردی نہیں ہورہی جس کا الزام بھارت عائد کرتا رہتا ہے، بلکہ مقامی آبادی بھارتی فوج کے ظلم کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کرکے عالمی برادری کویہ باور کرانا چاہتی ہے کہ یہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے، جس کو بھارت ماننے کے لئے تیار نہیں ہے، چنانچہ جب تک اس مسئلہ کو حل نہیں کرلیا جاتا کشمیری عوام اپنے حقوق کے لئے لڑتے رہیں گے، اور بھارت کے ظلم کو بھی عیاں کرتے رہیں گے، جو نہتے کشمیریوں پر کئی دہائیوں سے ڈھایا جا رہا ہے۔