بھارت کے اعتدال پسند قلم کار ، فن کار اور دانشور اپنے ملک میں پھیلتی ہوئی مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی سے بہت فکرمند اور شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ ان اہل دانش کی بے چینی کی سب سے بڑی وجہ نریندرمودی کا انداز حکمرانی ہے، جو بھارت کے سرمایہ داروں کی مالی مدد اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کی بھر پور حمایت سے مسندِاقتدار پر براجمان ہے۔ بھارت کے عام انتخابات کے دوران اس کا نعرہ تھا کہ بھارت کی اقتصادی ترقی کی راہیں ہموارکی جائیں گی کہ دنیا حیرت زدہ رہ جائے گی۔ بھارت کا ایک عام آدمی بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ مودی پورے بھارت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہادے گا حالانکہ یہ دیوانے کا خواب تھا۔مودی حکومت کو ایک سال گزر گیا ہے مگر بھارت میں معاشی ترقی کے آثار ظاہر نہیں ہوئے اور صورت حال ویسی ہی ہے ‘ جیسی من موہن سنگھ کے زمانے میں تھی، البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ مودی آر ایس ایس کے منشور کے تحت بھارت کو ایک انتہا پسند ہندو ملک بنانے پر تلا نظر آ رہا ہے۔ انتہاپسند ہندو تنظیمیںکھلے بندوں اقلیتوں کوہراساں کررہی ہیںاور خون ریزی سے دریغ نہیں کرتیں۔ بھارت کے اس بدلتے ہوئے جنونی رنگ کو وہاں کے لکھاریوں ، دانشوروں کے علاوہ یونی ورسٹیوںکے اساتذہ نے مسترد کردیا ہے۔ جن اہل قلم اور اہل دانش نے ماضی میں اپنی خوبصورت انسان دوست تحریروں کے ذریعہ سماج میں رونما ہونے والے مختلف پہلوئوں سے عوام الناس کو آگاہ کیا تھا اور انہیں حالات کے جبر کے خلاف مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کیا تھا، اب یہ تمام قابل احترام اہل قلم اپنے ایوارڈ واپس کررہے ہیں۔ ان میں نہرو خاندان کے دانشور اور لکھاری بھی شامل ہیں۔ نریندرمودی کے بعض حمایت یافتہ صحافیوں نے یہ پیش گوئی کی تھی کہ ایوارڈ واپس کرنے کا سلسلہ جلد رک جائے گا، لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اب تو ہندی اور انگریزی کے لکھنے والوں کے علاوہ مقامی زبانوں کے ایوارڈ یافتہ دانشور بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئے ہیں۔اہل قلم کا یہ پُرامن احتجاج نریندرمودی کو اب پریشان کررہا ہے ورنہ ابتدا میں تو اس نے اس نوعیت کے انوکھے احتجاج پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ اب وہ سوچ رہا ہے کہ بھارت کے دانشوروںکے اس احتجاج سے نہ صرف اس کی حکومت بد نام ہورہی ہے بلکہ ساری دنیا میں بھارت کا'' پُرامن چہرہ‘‘ بھی بے نقاب ہورہا ہے، چنانچہ اس کے حمایتی اہل قلم خوشامدانہ لہجے میں کہہ رہے ہیں کہ وہ ایوارڈ واپس نہ کریں کیونکہ مودی اپنی داخلہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے کو تیار ہیں؛ تاہم سرکاری حلقوں کی طرف سے جاری ہونے والے ان بیانات سے کچھ فرق نہیں پڑتا، کیونکہ مودی اوراس کے انتہاپسند جنونی ساتھیوں نے جس طرح بھارت کو اعتدال اور رواداری کی راہ سے ہٹا کر‘ کٹر ہندو ذہنیت اور تعصب کی طرف دھکیلا ہے، اس کی وجہ سے بھارت میں بسنے والی تمام اقلتیں خوفزدہ ہوگئی ہیں، اور مودی کے سخت خلاف ہوچکی ہیں۔اس وقت بھارت میں اندرونی طورپر ایک جنگ شروع ہوچکی ہے، اور یہ جنگ کسی نے باہر سے مسلط نہیں کی ، بلکہ اسے مودی اور اس کے انتہا پسند پری وار نے شروع کیا ہے اور اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے لئے معاشی، مذہبی اور ثقافتی ترقی کے تمام راستوں کو مسدود کیا جارہا ہے، تاکہ یہ تنگ آکر اپنی بودوباش بدل کر ہندو ازم اختیار کرلیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکے گا۔مسلمان ‘ مسلمان ہی رہتاہے۔ مسلمانوں نے ہی یہاں انسانی مساوات پر مبنی اقدار کی بنیادرکھی تھی جس میں مذہبی برداشت‘ رواداری کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی۔
بھارت میں اسلام کے فروغ میں صوفیائے کرام کا بہت بڑا حصہ ہے‘ بلکہ عوام کے دکھوں کا مداوا صوفیائے کرام ہی کیا کرتے تھے، اور ان کی خانقاہوںمیں عوام کا ہجوم رہتا تھا۔ مسلمان بادشاہ اپنی طاقت اور ثروت کے بل بوتے پر ہندوستان میں حکومت کیا کرتے تھے، لیکن ان میں بھی ہندو ئوں کے مذہبی جذبات کا بہت احترام تھا‘ جس کا تذکرہ '' تزک بابری‘‘ میں موجود ہے۔ انگریزوں کے دو سالہ دور میں ہندوئوں کو جبراً اور بسا اوقات لالچ کے ذریعے عیسائی مذہب میں شامل کیا گیا، مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تھا، حالانکہ ان کے پاس بھی قوت اور اقتدار تھا۔
اب مودی بھارت کو انتہا پسند تنظیموں کی مدد اور حمایت سے ہندو ملک بنانے کی کوشش کررہا ہے، لیکن یہ راہ بھارت کے اندرونی استحکام کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ اگر مسلمان اور بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتیں متحد ہوگئیں تو مودی کے لئے حکومت کرنا ایک دشوارہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ لکھاریوں کے احتجاج کی وجہ سے مودی بھارتی عوام کی اکثریت کی نگاہوں میں بے توقیر جارہا ہے۔ وہ اس منظر کو تبدیل کرنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتا ، بلکہ تمام تر کوشش کے باوجود وہ اپنی تخلیق کردہ انتہا پسند تنظیموں میں گھر کر بے بس ہوچکا ہے۔ کانگریس بھی مودی کی اس ہندو ازم کی پالیسی کو بھانپ چکی ہے اور وہ اہل قلم کی حمایت کرتے ہوئے اس کی انتہا پسند سوچ کی مذمت کررہی ہے، کیونکہ سیکولر بھارت کانگریس کا نعرہ تھا ۔ دوسری طرف بھارت کی کمیونسٹ پارٹی اور تمام چھوٹی بڑی جماعتیں بھی متحد ہوکر مودی کی اس انتہا پسندانہ سوچ کے خلاف صف آرا ہورہی ہیں۔ مودی بھارت میں اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کا رخ موڑنے یا پھر توجہ ہٹانے کے لئے بہت کچھ کرسکتا ہے، مثلاً وہ پاکستان کے خلاف مسلح تصادم بھی کراسکتا ہے، جیسا کہ اس کے پاکستان کے خلاف حالیہ بیانات سے ظاہر ہورہا ہے۔ پاکستان کے عوام خاص کر پاکستان کے دانشوربھی صورت حال پہ نظر رکھے ہوئے ہیں اور بجا طور پر سمجھتے
ہیں کہ مودی کے اقتدار میں بھارت کی اعتدال پسندی اور عدم تشدد کا نقاب اتر چکا ہے، اور کٹر ہندو ازم کا چہرہ ابھر رہا ہے، جو بھارت کی اقلیتوں کے لئے پریشانی اور مصائب کا موجب بن رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اہل قلم اپنی تحریروں کے ذریعے جہاں مودی کے اس انتہا پسند اور انسان دشمن جنونی رویے کی مذمت کررہے ہیں، وہیں ایک بار پھر وہ بھارت کے اعتدال پسند طبقوں( جس میں دانشور اور اساتذہ بھی شامل ہیں) کو یاد دلا رہے ہیں کہ اگر مودی کی بھارت میں رام راج قائم کرنے کی سوچ کے آگے بند نہ باندھا گیا تو بھارت اندر سے ٹوٹ جائے گا، جس کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
بھارت کے اعتدال پسند سیاست دانوں کو آگے بڑھ کر بھارت کے ان لکھاریوں کا ساتھ دینا چاہئے جو انتہا پسندی اور مذہبی جنونیت کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ بھارت کا اعتدال پسند طبقہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہا تو پھر وہ دن دور نہیں‘ جب بھارت کے اندراقلیتیں منظم طورپراپنے تحفظ وبقا کے لئے ایک ایسی جنگ کا آغاز کریں گی‘ جس کا اندازہ مودی سرکار کو فی الوقت نہیں ہے، اس لئے مودی کو چاہیے کہ بھارت کی اپنی سلامتی کی خاطر انتہاپسند رویے کو ترک کرکے اقلیتوں کو عملاً یہ احساس دلانے کی کوشش کرے کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے جس میں تمام اقلیتیں محفوظ ہیں۔سب بھارت کے شہری ہیں‘ اور سب کو بھارتی آئین کے تحت وہ تمام سیاسی، معاشی وثقافتی حقوق حاصل ہیں جو کہ اکثریت کو حاصل ہیں۔ کیا مودی سرکار آئین کی اس حقیقت کو بدلنے کا حوصلہ رکھتی ہے؟