مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں؟

دو نومبر کو بھارت اور پاکستان کے چوٹی کے رہنما کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں سابق وزیرخارجہ جناب خورشید قصوری کی کتاب کی رونمائی کے سلسلے میں جمع ہوئے تھے۔ اس پُر وقار تقریب کی صدارت سابق صدر جناب پرویز مشرف کررہے تھے۔ بھارت سے آئے ہوئے مہمانوں میں بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان خورشید ممتاز‘ سیاستدان منی شنکراور بی جے پی کے رہنما سدھیندرا کلکرنی شامل تھے۔ ہوٹل کا پورا ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا یہاں تک کہ بعض خواتین وحضرات کھڑے ہوکر ان رہنمائوں کو دیکھنا اور سننا چاہتے تھے، خصوصیت کے ساتھ سدھیندرا کلکرنی کو‘ جنہوں نے بڑی بہادری سے شیوسینا کے غنڈوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بمبئی میں خورشید قصوری کی کتاب کی تقریب ِرونمائی کا نہ صرف اہتمام کیا تھا، بلکہ اسے کامیاب بھی کرایا تھا۔ ان کے چہرے پر سیاہی مل دی گئی تھی، بلکہ بعض دیگر حربوں بھی سے انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ اپنی جگہ ڈٹے رہے اور کالک زدہ چہرے کے ساتھ تقریب میں شامل ہوئے اور تقریب کے اختتام تک وہیں بیٹھے رہے۔ سدھیندرا کلکرنی کو جب تقریر کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تو حاضرین نے کھڑے ہوکر تالیوں کی گونج میں ان کا زبردست استقبال کیا جو اس بات کی دلیل تھی کہ پاکستان میں ان کے اس بہادرانہ جذبے کی کتنی قدر کی گئی ہے۔ کلکرنی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات فوراً شروع ہونے چاہئیں نیز ان مذاکرات میں کشمیر کے بنیادی مسئلہ کو 
نظر انداز نہیںکرنا چاہئے کیونکہ اسی مسئلہ کے بنا پر ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی پائی جارہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ کشمیر جیسے خوبصورت علاقے میں بھارتی فوج کی موجودگی تشویش کا باعث ہے۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان اور بھارت کو کھلے دل سے مذاکرات کا آغاز کرکے جنوبی ایشیا میں حالا ت کو پُر امن بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کلکرنی نے خورشید قصوری کی کتاب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وہ حقائق پیش کئے گئے ہیں، جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کشمیر کا تنازع تقریباً حل ہونے والا تھا، لیکن جب صدر مشرف اچانک سیاسی منظر سے ہٹ گئے تو بات ادھوری رہ گئی، جس کا بہت دکھ ہے۔
مانی شنکر آئیرایک منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔ وہ 80ء کے اوائل میں کراچی میں بھارت کے قونصلر جنرل تھے۔ بے حد مقبول اور انسان دوست ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پہلے بھی اور اب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے دوستانہ مراسم کے قائل ہیں۔ انہوںنے بھی اپنی تقریر میں بھارت اور پاکستان کے رہنمائوں سے اپیل کی ہے کہ وہ جلد دوبارہ مذاکرات کا آغاز کریں، تاکہ بات چیت کے ذریعے معاملات حل ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ان دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوتا ہے تو لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ رُک جاتا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ اگر دیرپا امن قائم ہو جائے تو ایل او سی تقریباً بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ مانی شنکر نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ویت نام میں جنگ بندی سے متعلق ہونے والے مذاکرات کے دوران امریکہ شمالی ویت نام میں زبردست بمباری کر رہا تھا، لیکن ان دونوں ملکوں نے اپنی بات چیت جاری رکھی جس کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوگیا اور امن بھی قائم ہوگیا۔ ہر چند کہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی مسلح تصادم نہیں ہورہا لیکن مذاکرات کا نہ ہونا اچھا شگون نہیں۔ اسے شروع کرنے میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سلمان خورشید نے بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی اہمیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان سے متعلق پہلے سے کوئی توقع نہ رکھی جائے بلکہ کھلے دل سے انہیں دلائل کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
سابق صدر جناب پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان کے دور میں کشمیر کا مسئلہ تقریباً حل ہوگیا تھا، صرف دستخط کرنے باقی تھے، لیکن بعد میں جو کچھ بھی ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا: میرے دور میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی خوشگوار تھے۔ کارگل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اُجاگر ہوا تھا لیکن سیاست دانوں نے فوجی فتح کو سیاسی شکست میں تبدیل کر دیا تھا۔ خورشید قصوری نے اپنی کتاب سے متعلق مختصر تقر یر میںاس مفروضے کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا کہ پاکستان کی فوج بھارت کے ساتھ دوستی نہیں چاہتی۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان کی فوج نے انہیں کبھی یہ مشورہ نہیں دیا کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی قائم رکھی جائے بلکہ فوج دونوں ملکوں کے مابین ہمسائیگی پر مبنی اچھے تعلقات کی خواہش مند ہے۔ اس تقریب میں خواتین وحضرات کی دلچسپی دیدنی تھی کہ بھارت اور پاکستان دوبارہ مذاکرات کا آغاز کریں تاکہ امن کے امکانات پیدا ہوسکیں اور اس خطے سے انتہا پسندی اور غربت کی لعنت کو ختم کیا جاسکے، جو سماجی بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔ بھارت کو سمجھنا ہو گا کہ اسلحے کے انبار لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ 
اسے خطے بالخصوص اپنے ملک میں غربت و افلاس کے خاتمے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ علاقے میں کشیدگی پیدا کرنے سے اسے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں بھارت میں شیو سینا نے جو غنڈہ گردی کی اس سے عالمی سطح پر بھارت کا امیج بہت زیادہ متاثر ہوا۔ایک طرف یہ اپنے آپ کو سیکولر ملک کہتا ہے اور دوسری طرف اس کے اپنے ملک میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل نہیں۔ یہ انٹرنیٹ کا دور ہے۔ بھارت کو سمجھنا ہو گا کہ وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے بڑی تیزی سے پوری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے۔ اس کے اپنے اداکار ایوارڈ واپس کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک اعلان بھارتی اداکار شاہ رخ خان نے بھی کیا۔ بہت سے اداکار اپنے ایوارڈز واپس کر کے حکومت کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ مودی کو اس کا آئندہ انتخابات میں بہت زیادہ نقصان ہو گا کیونکہ کانگریس نے بھی ایشو کو سنجیدگی سے اٹھانا شروع کر دیا ہے اور شیو سینا کی ہرزہ سرائی کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔پاکستان کے کئی اداکاروں اور کرکٹ آفیشلز کو دھمکیاں دینے کی وجہ سے بھارت کا عالمی سطح پر امیج دن بدن خراب تر ہو رہا ہے۔ اگر مودی علاقے میں استحکام کی پالیسی اپنائیں گے تو اس کا فائدہ خود ان کے اپنے ملک بھارت کو ہو گا لیکن اگر انہوں نے اسی طرح مٹھی بھر دہشت گرد اقلیت کی پشت پناہی جاری رکھی تو انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں