حالیہ زلزلوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں میں چترال کے علاوہ شانگلہ بھی شامل ہے، جہاں اس وقت بھی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ زلزلے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں یہیں ہوئی ہیں۔ سخت سردی اور بارشوں کی وجہ سے متاثرین کے لیے فراہم کیے گئے خیمے نا کافی ہیں اور یہ سرد ہوائوں، برف باری اور بارش کا پانی روکنے میں بھی مدد گار ثابت نہیںہو رہے۔ متاثرین کو امداد پہنچانے میں حکومت کے علاوہ عسکری اداروں نے بھی بھر پورکردار ادا کیا ہے۔ جنرل راحیل شریف سب سے پہلے زلزلہ زدگان کے درمیان موجود تھے اور انہی کی ہدایت پر فوج کے بہادر نوجوانوں نے متاثرین کی نہ صرف فوراً مدد کی بلکہ انہیں محفوظ مقامات پر پہنچانے میں زبردست کردار بھی ادا کیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بھی زلزلے سے متاثرہ علاقوں میںگئے اور متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے کثیر رقم دینے کا اعلان کیا۔ یقیناً ان تمام اقدامات کی وجہ سے زلزلے اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی کسی حد تک دل جوئی ممکن ہوئی، لیکن متاثرین میں امدادی رقوم کی تقسیم میں تاخیر ہو رہی ہے، بلکہ بعض عناصر تاخیری حربے اختیار کرکے ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ حکومت کا اس کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔ یہ معاملات سیاسی نہیں بلکہ خالصتاً انسانی اور اخلاقی نوعیت کے ہیں، متاثرین کے مسائل حل کرنے کی کوششیں تیز تر کرنی چاہئیں تاکہ وہ بڑھتی ہوئی سردی کی اذیت سے بچ سکیں۔ ان اقدامات سے حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا۔
پاکستان میں جب کبھی کوئی ناگہانی آفت آتی ہے، حکومت بیدار اور فعال تو ہوجاتی ہے لیکن جب کچھ وقت گزرجاتا ہے تو رویوں میں سرد مہری کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں جس کی وجہ سے امداد ی کاموں اور متاثرین کی بحالی میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ کئی مقامات پر لوگ ہنگامی طور پر فراہم کی جانے والی سہولتوں سے یکسر محروم رہ جاتے ہیں۔ اس وقت چترال اور شانگلہ کے علاوہ تمام متاثرہ علاقوں میں یہی صورت حال پائی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں مقامی آبادیوں کے عوام کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کو فوری امداد پہنچائی اور بعد میں مسلح افواج کے جوانوں کے ساتھ مل کر بھی امدادی کاموں میں شرکت کرکے حب الوطنی اور انسانی دوستی کا عملی ثبوت پیش کیا۔ خیبر سے لے کراچی تک مختلف مذہبی اور فلاحی تنظیموں نے عام پاکستانیوں سے زلزلے سے متاثرین کے لیے ضروری اشیا جمع کیں اور بر وقت ان تک پہنچائیں۔ ان میں لحاف اور کمبلوں کے علاوہ اشیائے خور و نوش کا سامان وافر مقدار میں موجود تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم دکھ اورآلام کے موقع پر متحد ہوکر متاثرین کی مددکرنے میں کوئی دقیقہ فر وگذاشت نہیں کرتی۔ ایسے مواقع پر قوم کا اتحاد اور جذبہ حب الوطنی اسے قوموں کی برادری میں ایک نمایاں اور باعزت مقام دلاتا ہے۔ دشمن پاکستانی قوم کے اس مثالی اتحاد اور جذبہ حب الوطنی سے خوف زدہ ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک اسے کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن کی جانب سے مملکت خداداد کو نقصان پہنچانے کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئی تھی وہ ناکام ثابت ہوئی اور آئندہ بھی ہوگی،انشاء اللہ!
چترال ، شانگلہ اور دوسرے علاقوں میں زلزلے اور سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کے علاوہ آئی ڈی پیز کا مسئلہ بھی حکومت اور فلاحی تنظیموں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا رہا ہے۔ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد لاکھوں افراد اپنے گھر بار چھوڑکر محفوظ مقامات پر جا کر عارضی طور پر آباد ہوگئے ہیں۔ حکومت اور عسکری قیادت نے مل کر ان کی دیکھ بھال میں بھر پور کردار ادا کیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آئی ڈی پیز واپس اپنے گھروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، لیکن ان کی مکمل بحالی کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس مقصد کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہے۔ ان علاقوں میں معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے ایک مؤثر نظام تشکیل دینا ہوگا تاکہ گھر واپس آنے والے لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہو سکیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ان کے علاقے ابھی تک دہشت گردوں سے مکمل طورپر صاف نہیں ہوئے۔ بری فوج کے علاوہ ایئر فورس بھی ان کے خلاف کارروائیاں کرکے وحدت پاکستان کو محفوظ بنانے کی سعی کر رہی ہے اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کررہی ہے۔
آئی ڈی پیز نے اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی سا لمیت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں، اس کا اعتراف پاکستان کا بچہ بچہ کر رہا ہے اور ان کی ازسرنو آباد کاری میں شرکت بھی کر رہا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ منظم آبادکاری کے لیے کثیر سرمائے کی ضرورت ہے جسے پورا کرنا حکومت وقت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت کو اس مقصد کے لیے بیرونی امداد بھی لینی پڑے تو اس میں کسی قسم کی پس و پیش نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ آئی ڈی پیز کی آباد کاری کا کام تسلی بخش بنیادوں جاری رہ سکے ۔ اگر فاٹا میں ترقیاتی کاموں کا بھر پور آغاز کردیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے جہاں بے روزگاری ختم ہونے میں مددملے گی وہاں ایک نئی سوچ بھی پیدا ہوگی جو ان علاقوں کی مزید ترقی کا باعث بنے گی۔ اس طرح وہ دہشت گرد جو غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بن کر اس خوبصورت علاقے اور پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، وہ بھی نہ صرف پسپائی اختیار کریں گے بلکہ انہیں وہاں دہشت گردی کے مواقع بھی نہیں مل سکیں گے۔ آئی ڈی پیز کو یہ احساس بھی دلانا چاہیے کہ پوری پاکستانی قوم نہ صرف ان کے ساتھ ہے بلکہ ان کے مسائل کے حل کے لیے حکومت پر مسلسل دبائو بھی ڈال رہی ہے تاکہ ان کی باعزت واپسی ممکن ہوسکے۔ اس ضمن میں پاکستان کی عسکری قیادت اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی از سرنو بحالی کے لیے دن رات کوششیں کر رہی ہے بلکہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوچکی ہے۔ ابھی اس ضمن میں مزید کو ششیں درکار ہیں تاکہ ان کی از سرنو بحالی اطمینان بخش طریقے سے آگے بڑھتی رہے۔