عمران خان اور ریحام خان کی طلاق نے میڈیا کے لئے نیا مواد مہیا کر دیا ہے۔ ہر روز ان دونوں سے متعلق طرح طرح کی باتیں بیان کی جارہی تھیں۔ ایک حلقے کی طرف سے تاثر دیا گیا کہ عمران خان کا سیاسی کیرئیر کمزور ترین سطح پر پہنچ چکاہے۔ اس قسم کی سوچ کا اظہار وہ لوگ کررہے ہیں جو انسانی نفسیات کا ادراک نہیںرکھتے۔ یقینا اس طلاق کی وجہ سے عمران خان پر عارضی طورپر تکلیف دہ اثرات ضرور پڑے اور غصے میں آکر انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کو ڈانٹ دیا تھا ؛ تاہم بعد میں اس کی معافی بھی مانگی تھی جو بڑے دل گردے والوں کا کام ہوتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان طلاق کے بعد یقینی طورپر ایک تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ طلاق کا مسئلہ ایسا ہے جیسے کسی کے گھر فوتگی ہو جائے۔ یہ بات درست ہے اور جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے۔اسلام میں طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے ؛تاہم یہ عارضی کیفیت ہے جو امید ہے کہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گی۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے میں خود عمران خان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس مسئلہ پر صحافیوں کے سوالات کوزیادہ اہمیت نہ دیں اور نہ ہی ریحام خان کو ایسا کرنا چاہئے۔دراصل یہ مسئلہ فریقین کے مابین ذاتی نوعیت کا ہے ، جسے سیاسی نوعیت کا بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تحریک انصاف ایک اہم ترین سیاسی پارٹی ہے جو 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ نوجوان طبقہ عمران خان کو بہت زیادہ پسند کرتاہے، خصوصیت کے ساتھ جب وہ کرپشن فری پاکستان کی باتیں کرتے ہیں تو نوجوان طبقے کے علاوہ دانشور طبقہ بھی بہت متاثر ہوتاہے، کیونکہ گزشتہ سات آٹھ سالوں کے دوران ملک کے بیشتر سیاستدانوں نے مفاہمت کی سیاست کی آڑ میں جو تباہی مچائی ہے‘ اس نے پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے اور اس کی وجہ سے ابھی تک پاکستان معاشی طورپر اپنے پیروں پر کھڑا نہیںہوسکا ۔عمران خان پاکستان کو ایک نئے پاکستان میں تبدیل کرکے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مسند اقتدار پر ایسے افراد کو دیکھنا چاہتے ہیں، جو کسی بھی طرح سے کرپشن میں مبتلا نہ رہے ہوں۔ ان کی نگاہ میں یہی حقیقی جمہوریت ہے، ورنہ جس قسم کی جمہوریت اس وقت ملک میں رائج ہے اس کا عوامی مفاد اور حقوق سے عملی طور پر کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔اسے چند بڑوں نے اپنے گھر کی لونڈی اور اپنے اثاثے بڑھانے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔
عمران خان انہی عناصر کو چیلنج کررہے ہیں جنہوں نے کرپشن کے ذریعے ناجائز دولت اور ثروت میں غیر معمولی اضافہ کرکے عوام کو جھوٹی جمہوریت کے پر فریب نعروں سے یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہی عناصر اب عمران خان اور ریحام خان کے درمیان ہونے والی طلاق سے بہت خوش نظر آرہے ہیں بلکہ ان کے دلوںمیں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور وہ یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل ختم ہورہا ہے، ان عناصر کے اس غیر حقیقی پروپیگنڈے کو میڈیا کے چند دوست ہوا دے رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت بالکل بر عکس ہے، جیسا کہ میں نے پہلے کہیں لکھا ہے کہ یہ عارضی صدمہ ہے، یہ کیفیت ہر چند کہ بہت تکلیف دہ ہے، لیکن خان صاحب کو چاہیے کہ جلدہی اسے اپنے ذہن سے تحلیل کرکے اپنے سیاسی کیرئیر پر توجہ دیں اور عوام کے بنیادی ایشوز کو اپنی گفتگو کا موضوع بنائیں ۔ان کی پاکستان کی سیاست میں موجودگی عوام اور پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے ،ورنہ موجودہ حکمران طبقہ اور ان کے مفاہمتی سیاستدان کبھی بھی پاکستان کو ایک ترقی یافتہ مستحکم ملک بننے نہیں دیں گے، بلکہ وسائل کو اپنے اور اپنے دوستوں رشتہ داروں اور خوشامدیوں کے استعمال میں لاکر عوام کو مفلسی اور محتاجی کی دلدل میں دھکیلتے رہیں گے، جیسا کہ باشعور طبقہ محسوس کررہا ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاست کے تناظر میں اس وقت ایک طاقتور حزب اختلاف کی اشد ضرورت ہے جوموجودہ حکومت کی کارکردگی پر نہ صرف گہر ی نگاہ رکھے بلکہ ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کو عوام کے سامنے لاکر انہیں عوام دوست طرز حکمرانی کرنے کی طرف مائل اور مجبور کرے، ورنہ پاکستان اقتصادی طورپر ایک ''بنانا‘‘ری پبلک بن جائے گا۔ پارلیمنٹ کے اندر سید خورشید شاہ کی سرپرستی میں جو ایوزیشن ہے وہ دراصل میاں نواز شریف صاحب کی حمایتی اپوزیشن ہے اور حکومت کے کرتوتوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ فرد واحد کی نمائندہ ربڑ اسٹمپ بن چکی ہے، جہاں قانون سازی کا کام پارٹی مفادات کے تحت کیاجارہا ہے۔ حکمران کا یہ واضح طرز عمل اس بات کا مظہر ہے کہ اشرافیہ کسی بھی صورت میں سٹیٹس کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے اس کو مضبوط کررہی ہے۔ عمران خان کی موجودگی اور ان کی سیاست اسٹیٹس کو توڑنے پر مرکوز ہے، بلکہ حقیقی جمہوریت رائج کر کے تبدیلی کی صورت میں عوام کو وہ تمام سہولتیں پہنچانا چاہتی ہے، جس کی آرزو میں اب تک نہ جانے عشاق کے کتنے قافلے وقت کی دہلیز فنا ہوچکے ہیں لیکن یہ سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے آگے بڑھیں۔ عارضی طورپر ان کا سیاسی سفر جو بعض لوگوں کی نگاہ میں رکتا ہو محسوس ہورہا ہے، یا پھر جس کی طرف دشمن اشارہ کررہے ہیں اس تصور کو توڑ کر نئے پاکستان کی تعمیر کی جانب قدم بڑھاتے رہیں۔ جو گروہ گزشتہ تیس چالیس سال سے پاکستان میں جمہوریت کے نام پر مملکت کا کاروبار چلا رہا ہے اور وسائل کو اپنے استعمال میںلاکر ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ رہا ہے ‘اس کو اگر ہٹا یا نہیں گیا تو سیاسی ومعاشی حالات کبھی بھی نہیں بدل سکیں گے۔ ایسے عناصر نے اپنی ناجائز دولت کے ذریعہ جمہوریت کو کمزور اور پارلیمنٹ کو غیر موثر بنا دیا ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے تحریک انصاف Catalytic Agent کاکردار ادا کر سکتی ہے۔ عمران خاں کو ذاتی نوعیت کی عارضی صورتحال سے دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے، اور نہ ہی ان کے دشمن عناصرکو مزید ان کا مذاق اڑانے کا موقع ملنا چاہئے۔ اس وقت پاکستان میں عمران خان کے علاوہ عوام کی مجبوریوں ، محرومیوں اور دکھوں کا مداوا کرنے والاکوئی نظر نہیں آ رہا۔ اس لئے عمران خان کو ایک نئی سوچ اور جذبے کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں تبدیلی کے نعرے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں کسی قسم کی کوتاہی کا مظاہرہ نہیںکرنا چاہئے اور آگے بڑھتے رہنا چاہیے ؎
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے