جب اشرف غنی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میںشرکت کے لئے اسلام آباد آئے تو سرخ قالین بچھا کر اور اکیس توپوں کی سلامی دے کر نہایت عزت و احترام سے ان کا استقبال کیا گیا۔ اشرف غنی اس غیر معمولی پروٹوکول سے بہت متاثر نظر آرہے تھے۔ اپنے قیام کے دوران انہوں نے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جناب راحیل شریف سے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے علاوہ طالبان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے سے متعلق تفصیلی بات چیت کی؛ تاہم انہوں نے ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران پاکستان کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردی کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ اس وقت افغانستان میں فاٹا میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کی وجہ سے سینکڑوں پاکستانی پختون پناہ گزیں جمع ہو چکے ہیں۔انہوں نے اپنے خطاب میں ایسی باتیں کیں، جن سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات تو قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن افغانستان کے اندر موجود پاکستان مخالف طاقتیں انہیں ایسا کرنے نہیں دے رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب قندھار ایئرپورٹ پر جنگجو افغان طالبان نے حملہ کیا تو اس حملے کا الزام بھی پاکستان پر لگایا گیا، نیز افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے محض اس لئے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا کہ وہ اشرف غنی کی پاکستان نواز پالیسی کے خلاف ہیں۔ پاکستان پر طالبان کو سپورٹ کرنے اور انہیں افغانستان کے بعض علاقوں میں حملہ کرنے کی ترغیب دینے سے متعلق تمام الزامات بے بنیاد ہیں ، جبکہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی افغانستان کے سلسلے میں پالیسی بڑی واضح ہے، یعنی افغانستان کی جانب سے امن کی تمام کوششوں کو عملی طورپر پاکستان کی حمایت حاصل رہے گی، لیکن اس یقین دہانی کے باوجود افغانستان کے اندر ایک طاقتور لابی، جس میں کچھ وار لارڈز بھی شامل ہیں، پاکستان کے ساتھ پر امن تعلقات نہیں چاہتے، جبکہ بھارت ان پاکستان دشمن طاقتوں کی حمایت کررہا ہے، اور ان کی مالی مدد بھی کررہا ہے۔پاکستان اب بھی اشرف غنی کی خواہش کے مطابق طالبان سے مذاکرات کرانا چاہتا ہے، اور مؤخر شدہ مری مذاکرات کا آغاز جلد سے جلد کرانا چاہتا ہے۔ اب گیند افغانستان کے کورٹ میں ہے۔ مری مذاکرات سے قبل پاکستان ، دوحہ میں افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اہتمام کراچکا تھا، بلکہ وہاں افغان طالبان کا سیاسی دفتر بھی قائم ہوچکا تھا، لیکن افغانستان کے سابق صدر حامد کرزائی نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کردیا تھا، اب بھی یہی شخص پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کی منظوری کی راہ میں سنگ گراں بنا ہوا ہے، لیکن یہ بات قارئین کرام کو معلوم ہونی چاہئے کہ امریکہ اور چین دونوں تہہ دل سے یہ چاہتے ہیں کہ افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا جلد سے جلد آغاز ہوسکے، تاکہ اس خطے میں ترقی سے منسلک تمام پروجیکٹس بغیر کسی رکاوٹ کے پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں، جس میں تاپی گیس پائپ لائن پروجیکٹ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کا پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔ تاپی گیس پائپ لائن کا منصوبہ (جس پر 10ارب ڈالر خرچ ہونگے) اسی وقت مکمل ہوسکتا ہے جب افغانستان میں امن قائم ہوگا، جس کے فی الحال کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح اتوار کوہوچکا ہے۔اس تقریب میں ترکمانستان کے صدر کے ساتھ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، بھارت کے نائب صدر جناب حامد انصاری ، افغانستان کے صدر اشرف غنی موجود تھے۔امید ظاہر
کی گئی ہے کہ گیس کا یہ منصوبہ 2018ء تک مکمل ہوجائے گا، لیکن میں یہاں پھر اسی بات کو دہرائوںگا کہ تاپی گیس پائپ لائن کا یہ منصوبہ افغانستان میں امن کے قیام سے مشروط ہے ، کیونکہ یہ پائپ لائن افغانستان سے ہوکر گزرے گی۔ امریکہ اس منصوبے کا زبردست حمایتی ہے، اس لئے یہ امید رکھنی چاہئے کہ شاید یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے چاروں ممالک میں جہاں توانائی کی ضروریات پوری ہوسکیں گی، وہیں ان ممالک میں اقتصادی ترقی کی نئی راہیں بھی کھل سکیں گی۔ اگر تاپی منصوبے کے ساتھ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے سے متعلق حکمت عملی تشکیل دی جائے، تو تاپی منصوبے سے بہت جلد یہ منصوبہ مکمل ہوسکتا ہے، کیونکہ ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کرلی ہے، جبکہ پاکستان نے اپنے حصے کی پائپ لائن کی تعمیر بعض طاقتوں کے دبائو کی وجہ سے مؤخر کی ہوئی ہے؛ حالانکہ اسی وقت جبکہ جنوری 2016ء سے ایران پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی عائد شدہ پابندیاں ختم ہونے جارہی ہیں، پاکستان کے لئے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا بہترین موقع ہے، اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئے، ایران کی
حکومت اس ضمن میں پاکستان کو قرضہ دینے کی پیش کش بھی کر چکی ہے۔ اگر ایرانی حکومت سے دوبارہ اس سلسلے میں رجوع کیا جائے تو وہ منصوبے کے ضمن میںمالی امداد کا وعدہ پورا کرسکتی ہے۔ بعض اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ تاپی منصوبے کے ساتھ ساتھ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ شروع کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ چین اور امریکہ، دونوں ان منصوبوں میں مالی امداد فراہم کرسکتے ہیں بالخصوص چین جس کے پاس اس وقت 300ارب ڈالرز سے زائدReservesموجود ہیں، اس لئے پاکستان کی قیادت کو ملک کے مفادات کو زیادہ ترجیح دینی چاہئے اور ان منصوبوں کو شروع کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے، جو جلد مکمل ہوسکتے ہیں اور جن کی مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں۔ تاپی گیس لائن کا منصوبہ اگرچہ بہت اچھا ہے، لیکن دہشت گردی کی وجہ سے یہ منصوبہ متاثر ہوسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ تاپی منصوبہ پچیس سال گزر جانے کے بعد اب دوبارہ شروع ہونے والا ہے، دوسری طرف پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ جلد پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے، لیکن بیرونی دبائو کی وجہ سے اور پاکستان کی کمزور سیاسی قیادت کی وجہ سے یہ منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہے، جس کی وجہ پاکستان کی صنعت اور تجارت کو بے پناہ نقصان پہنچ رہاہے۔ ذراسوچئے!