پشاور آرمی پبلک اسکول کے بچوں کی شہادت کو ایک سال ہوگیا ہے، لیکن ان کی یادیں اور باتیں ابھی تک ذہن و دل کے گوشوں سے محو نہیں ہو رہی ہیں۔ تمام تر کوشش کے باوجود آنسو رک نہیں پا رہے اور شاید ان کی یادوں سے وابستہ یہ آنسو کبھی نہیں رک پائیں گے۔ سفاک، ظالم، جرائم پیشہ اور درندہ صفت دہشت گردوں نے یہ گھنائونا فعل انجام دیا تھا، ان میں سے کچھ واصل جہنم ہوگئے اور کچھ اب بھی باقی ہیں جن کا حساب کرنا باقی ہے۔ جن مجرموں کو پھانسی ہوئی، ان کے لیے یہ دنیاوی سزا ہے، باقی سزا قبر اور عالم برزخ میں ان کا انتظار کر رہی ہے۔ بے گناہ بچوں کو قتل کرنے والوں کی ایک سزا جہنم کی آگ ہے جو ان کو ہر لمحہ جھلساتی رہے گی اور سوال کرے گی کہ کیا تمہیں انسانی زندگی کی حرمت کی ہدایت نہیں ملی تھی؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے ایک ایسا گھنائونا فعل انجام دیا ہے جس کی معافی نہ اس دنیا میں ہے اور نہ ہی اُس دنیا میں! کرائے کے ان قاتلوں نے ایک پڑوسی ملک میں بیٹھ کر اس گھنائونی سازش کی منصوبہ بندی کی تھی اور شاید ان کا یہ خیال تھا کہ معصوم بچوں کو قتل کرکے وہ پاکستان کے وجود کو ہلا کر رکھ دیں گے، دہشت گرد جیت جائیں گے اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ ختم ہوجائے گی، لیکن ان کے منصوبے خاک میں مل گئے۔ معصوم بچے بڑی بے دردی اور سفاکیت سے قتل کیے گئے جس کی وجہ سے پوری قوم دل گرفتہ ہوگئی تھی، قوم پر رنج و غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے، ہرآنکھ اشک بار تھی۔ غم و غصے نے انہیں دشمن سے مقابلہ کرنے کا ایک نیا حوصلہ عطاکیا، اب قوم ان بچوں کی شہادت کے عوض سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ہوچکی ہے اور دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں اور سہولت کاروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ جب تک سرزمین پاک سے ایک ایک دہشت گرد کا صفایا نہیں کردیا جاتا یہ جنگ جاری رہے گی۔ آرمی پبلک سکول کے شہدا کے والدین کو بھی سلام کہ جن کے بچوں نے جام شہادت نوش کیا۔ شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر انہوں نے صبر واستقلال کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے عوام کو بھی صبر کرنے کی تلقین کی اورکہا کہ اب ان بچوں کی شہادت کے واسطے ہمیں تمام تر اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بن جانا چاہیے کیونکہ دشمن ہماری صفوں میں نفاق اور عصبیت کا زہر پھیلا کر ہم پر کاری وار کر رہا ہے۔ عیار اور سفاک دشمن کے اس وار کو ہم اپنے درمیان اتحاد اور اخوت کے ذریعے ناکام بنا کر شہید بچوں کو حقیقی معنوں میں خراج عقیدت پیش کرسکتے ہیں۔
پوری قوم اس سانحہ کو یاد کررہی ہے اور شہید بچوں کے لیے جنت میں اعلیٰ مقام کی عاجزی و انکساری کے ساتھ رب کی بارگاہ میں دعا کر رہی ہے اور التماس کر رہی ہے کہ اے کروڑوں کائنات کے مالک رب! ہمیں وہ حوصلہ، ہمت اور استقلال عطاکر کہ ہم دشمن کی تما م چالوں کو ناکام اور نامراد بنا تے ہوئے اس ملک کو حقیقی معنوں میں پُر امن فلاحی ریاست بنا سکیں، جس کا تصور جناب علامہ اقبالؒ اور بانی پاکستان جناب قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین بھی یہی چاہتے ہیں اور ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ پاکستان کو تحریک پاکستان اور تشکیل پاکستان کے جذبوں سے ازسر نو سرشار کرتے ہوئے اس ملک کو حقیقی معنوں میں نا قابل تسخیربنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے۔
16دسمبر 2014ء کے اس سانحہ نے پوری دنیا کو بھی سوگوار کردیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس المناک واقعہ کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی تھی اور دہشت گردوں کے خلاف
پاکستان کے عوام اور فوج کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ پوری دنیا پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما نے بھی پشاور آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں کی شہادت پر اپنے گہرے دکھ درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی عوام اس سانحہ پر پاکستانی قوم کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی قسم کے بیانات دیگر ممالک سے بھی آئے تھے جن میں چین، برطانیہ اور فرانس بھی شامل تھے۔ ان تمام پیغامات سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ ان بچوں کی شہادت پر پوری دنیا کی ہمدردیاں پاکستان کے لیے سمٹ آئی ہیں، وہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے ساتھ ہیں اور ہر طرح سے ان کی مدد بھی کریں گے کیونکہ اب دہشت گردی کا مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ یہ عفریت آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ وہ ممالک جو پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے تھے، اب انہیں اپنے ان الزامات پر ندامت محسوس ہو رہی ہے اور انہیں ادراک ہوچکا ہے کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کو دنیا کے تمام ممالک کے باہمی اتحاد کے ذریعے ہی روکا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس جنگ میں قربانیاں دے رہا ہے، جس میں سب سے بڑی قربانی آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں کی ہے، جو اپنے خون سے ایک ایسی تاریخ رقم کرگئے ہیں جس کو وقت اور زمانے کی رفتار بھی معدوم نہیں کرسکے گی۔
16دسمبر کی صبح ہونے والے اس دردناک واقعے کی اطلاع پر میں رو رہا تھا، آنسو رک نہیں رہے تھے، سوچ رہا تھا کہ کیا انسان اس حد تک درندگی اور سفاکیت کا راستہ اختیار کرسکتا ہے؟ پھر مجھے جواب ملا کہ ہاں ایسا ہوسکتا ہے؛ جہالت، احساس کمتری، لسانی اور فرقہ واریت پر مبنی سوچ ایک انسان کو شیطان بنا دیتی ہے اور وہ تاریک سوچ کے ساتھ ایسا فعل انجام دے سکتا ہے جیسا کہ پشاور آرمی پبلک سکول میں بچوں کی المناک شہادت کی صورت میں دیکھنے میں آیا تھا۔ آج پھر میں اپنے آنسوئوں کے دھند میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اور ان بچوں کو یاد کر رہا ہوں جنہیں شیطان صفت درندوں نے بڑی بے رحمی اور بے دردی سے قتل کیا تھا۔ ان کا یہ دکھ میرے لیے انمٹ بن چکاہے اور شہید بچوں کے والدین کے لیے بھی جو آج بھی اپنے پیاروںکی سکول سے واپسی آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ انتظار مرگ ہے مگر قوم کو ان کی موت میں دائمی زندگی مل چکی ہے۔ بقول غالب ؎
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوںگی کہ پنہاں ہوگئیں