جیسا کہ میں نے گوادر سے متعلق اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ چین کی جانب سے اقتصادی راہداری کی تعمیر کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں مثبت سوچ کے آثار پیدا ہورہے ہیں، اس میں کچھ دیر لگے گی لیکن سوچ بدل رہی ہے، دہشت گردوں کو پڑوسی ممالک تخریب کاری کے لئے استعمال کررہے تھے، آجکل وہ خود اپنی ہی پیدا کردہ مصیبتوں میں گرفتار ہوچکے ہیں، اس لئے گمراہ نوجوان اپنے ہتھیار پھینک رہے ہیں، ڈاکٹر مالک کی سابقہ صوبائی حکومت اور اب ثنااللہ زہری بھی اسی سوچ کے مالک ہیں کہ سیاسی مذاکرات اور مساوات پر مبنی معاشی ترقی کے ذریعہ انہیں اپنا ہمنوا بنایا جاسکتا ہے، دراصل گوادر کی ہمہ گیر ترقی سے اب پورے بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی وابستہ ہو چکی ہے، اسی بندرگاہ سے چین کی اقتصادی راہداری شروع ہورہی ہے، جس پر بڑی سرعت کے ساتھ شب و روز کام ہورہا ہے، گوادر پورٹ کی تعمیر 2002ء میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ایک مخصوص دفاعی اور اقتصادی حکمت عملی کے تحت شروع کی گئی تھی، جس میں چین کو ایک بڑے پارٹنر کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا، حقیقت میں گوادر پورٹ کی تعمیر کا کام اور سرمایہ (تقریباً80فیصد) چین نے ہی دیا ہے، جبکہ حکومت پاکستان کی اس میں شمولیت (اقتصادی بنیادوں پر)زیادہ نہیں ہے، اس بندرگاہ کا پہلا فیز 2005ئمیں مکمل ہوا تھا، جبکہ دوسرا فیز 2007ء میں اور 2008ء کے آخر میں یہ پورٹ ایک مکمل جدید کمرشل پورٹ کی حثیت اختیار کر چکی ہے، جس میں بڑے سے بڑے جہاز بہ آسانی سے آ اور جا سکتے ہیں۔ 500سے زائد چینی انجینئروں اورماہرین کے علاوہ پاکستان نیوی اور سویلین کا بھی اس کی تعمیر میں اہم کردار ہے، پاکستان نیوی اب اس پورٹ کی دیکھ بھال ، نگرانی اور اندرونی و بیرونی خطرات سے اسے بچانے کی تمام تر ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہے۔ پی این ایس قاسم کے او سی عاطف اور ان کے نائب زاہد شاہ نے صحافیوں کے ساتھ بریفنگ میں بتایا کہ اس خطے میں الجھی ہوئی صورتحال کے پیش نظر پاکستان نیوی گوادرپورٹ کو درپیش سمندری خطرات اور زمینی خطرات کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بھر پور سکت اور صلاحیت رکھتی ہے، گوادر سے اقتصادی راہداری کا کام شروع ہوچکا ہے، جس میں ہر قسم کی ملازمتوں کے سلسلے میں مقامی افراد کو زیادہ ترجیح دی جارہی ہے، ایک نیا سماجی و معاشی ماحول جنم لے رہا ہے، گو کہ خطرات اب بھی موجود ہیں لیکن ہمیں ایف سی اور لیویز سے بھی تعاون مل رہا ہے، جو زمینی خطرات کا براہ راست مقابلہ کررہے ہیں، گوادر میں جلد ہی جہازسازی کے لئے ایک پروجیکٹ پر کام شروع ہوجائے گا، جس کے ذریعہ ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکے گا۔ 2002ء اور 2007ء کے درمیان گوادراور اس کے گردونواح میں غیر معمولی ترقیاتی کام شروع کئے گئے ہیں، جن میں 635کلومیٹر لمبی مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر بھی شامل ہے، جس کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے تعمیر کیا تھا، جو 2004ء میں مکمل ہوئی تھی، گوادر اور کراچی کے درمیان کوسٹل ہائی وے کے ذریعہ ایک اچھا ، آرام دہ ، خوبصورت اور فطری حسن سے مالا مال راستہ بن چکا ہے،اس سٹرک کے ہر موڑ پر نیلا سمندر آپ کو اپنے تمام تر حسن کے ساتھ خیر مقدم کرتا ہوا نظر آتاہے، اب اس راستے کے ذریعہ گوادر اور بلوچستان کے دیگرشہروں میںسیاحت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکاہے، کوسٹل ہائی وے گوادر کی بندرگاہ سے کراچی کے تاجروں اور صنعت کاروں کے درآمدی اور برآمدی سامانوں کو لانے اور لے جانے میں ایک کلیدی کردار ادا کریگی، بلوچستان کی حکومت یہاں کے صنعتی زون تعمیر کر رہی ہے جس میں چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو پلاٹ دیے جائیں گے، تاکہ یہاں جدید صنعت سازی اور پیداوار کا کام شروع ہوسکے، اسکے علاوہ ایران کی حکومت نے گوادر کے صنعتی زون میں آئل ریفائنری تعمیر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، گوادر کی بندرگاہ اس خطے میںموجود کسی بھی بندرگاہ کے لئے چیلنج یا خطرہ نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے ذریعہ ان کی تجارت وحرفت متاثر ہوسکے گی، بلکہ ان کے مابین ایک طرح کا Complimentryرشتہ استوارہوگا جو امن کی صورت میں اس خطے کی معاشی خوشحالی کا ایک اور موثر ذریعہ ثابت ہوسکے گا،جو کہ اس خطے کے عوام کا خواب ہے۔
گوادر سے ہم نیوی کے ہوائی جہاز کے ذریعہ ارمارا جناح نیول بیس پہنچے ، کراچی کے بعد ارمارا جناح نیول بیس پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا بیس ہے، اس نیول بیس (Base)پر ہر طرح کی وہ جدید سہولتیں موجود ہیں جو کراچی کے نیول بیس پر موجود ہیں، اس بیس کو تعمیر کرنے کا خیال اس لئے بھی آیا کہ دشمن سے جنگ کی صورت میں کراچی کا نیول بیس غیرمحفوظ ہوسکتا ہے اس لئے اس بیس کی تعمیر ضروری سمجھی گئی، جیسا کہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میںہوا تھا، یہاں پر سمندر سے ملحق پہاڑ پر ایک طاقتور ریڈار اسٹیشن بھی قائم ہے جو پاکستان کی سمندری حدود کے اندر اور باہر ہر قسم کے جہازوں کی آمدورفت پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے، ارمارا بیس کے قریب واقع شہر کی آبادی تیس ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ جناح نیول بیس کی تعمیر سے قبل مقامی لوگوں کا پیشہ ماہی گیری تھا، لیکن اب بعض ماہی گیری چھوڑ کرجناح نیول بیس میں ملازمتیں کررہے ہیں، جنہیں اچھی تنخواہ مل رہی ہے، ان کے بچوں کو مفت تعلیم اور علاج کی جدید سہولتیں حاصل ہیں، پاکستان نیوی نے ارمارہ میں ایک کیڈٹ اسکول، بحریہ کالج اور ایک جدید اسپتال قائم کیا ہے، اس اسپتال میں ہر قسم کے علاج کی سہولتیں موجود ہیں، دوا بھی مفت دی جاتی ہے بلکہ ارمارا کے ہر باشندے کے لیے مفت علاج کی سہولتیں بھی موجود ہیں، کیڈٹ اسکول کے بچوں سے مل کر ہمیں بے حد خوشی ہوئی تھی ، اس کیڈٹ اسکول میں بلوچی بچے بڑی محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کررہے ہیں، جو تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان نیوی میں شامل ہوکر محنت ، دیانت اور یقین محکم کے ساتھ بڑی بڑی پوسٹیں حاصل کرسکتے ہیں، ہمارے سامنے ایک بچے نے قرآن پاک کی تلاوت اور ترجمہ سنایا، اسکے بعد سب نے ملکر پاکستان کا قومی ترانہ سنایا، جس کا تاثر ہمارے ذہنوں میں بہت دیر تک قائم رہا، اسی طرح ہم نے یہاں بچے اور بچیوں کا ایک مخلوط اسکول دیکھا جہاں بلوچ بچیاں اور بلوچ استانیاں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں، یہاں سب نے ملکر ہمیں علامہ اقبال کی مشہور نظم لب پہ آتی ہے دعا سنائی اور قومی پرچم کو سلام پیش کیا، اس منظر کو دیکھ کر ہمارے بعض ساتھی اپنے آنسونہیں روک سکے ۔اس اسکول میں کراچی کی ایک تعلیم یافتہ خاتون شفیفہ گزشتہ پانچ سال سے بلوچستان کے ان بچوں کو پڑھارہی ہے، اور بہت خوش ہے، اس نے کہا کہ مجھے بلوچستان کے بچوں کی خدمت کرکے لازوال مسرت محسوس ہورہی ہے۔ (جاری )