بلوچستان میں بعض ایسے ''ترقی پسند‘‘ افراد بھی پائے جاتے ہیں جو بلوچستان میں فوج کے کردار کے بارے میں ابہام میں مبتلا ہیں۔ بسا اوقات یہ عناصر فوج کے خلاف ''تبرا‘‘ کرنے سے باز نہیں آتے حالانکہ پاک فوج جس میں بری‘ بحری اور فضائیہ شامل ہے، بلوچستان کے عوام کی بلا امتیاز خدمت کرنے اور ترقی دینے میں کلیدی بلکہ مثالی کردار ادا کررہی ہے۔بلوچستان میں بیرنی تخریب کاروں کی دہشت گردی کااگر کوئی مقابلہ کررہا ہے تو وہ افواج پاکستان کی نگرانی اور مشاورت سے ایف سی اور لیویز ہیں ؛تاکہ یہاں امن قائم ہو اور صوبائی حکومت ترقیاتی کاموں کو یکسوئی کے ساتھ انجام دے سکے۔ بلوچستان کی پسماندگی کا سبب ماضی کی حکومتوں کی نااہلی اور ناقص کارگزاری ہے۔ انہوںنے ملک کے سب سے بڑے اس صوبے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیںکی۔ حالانکہ انہیں عسکری قیادت کی جانب سے صوبے کی خطے میں اہمیت سے متعلق آگاہی دی جاتی رہی ۔ سرداروں نے بلوچی عوام کو پسماندہ اور ناخواندہ رکھنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی‘ وفاق بلوچستان کی حکومت کوتعمیر و ترقی کے منصوبوں کے لئے جو بھی فنڈز دیتی رہی کرپشن کی نذر ہوگئے۔ کرپشن کی وجہ سے صوبہ پسماندہ رہ گیا اورصوبے کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔ بلوچ نوجوانوں کو بیرونی طاقتوں نے مرکز کے خلاف اکسایا اور ان کے کچے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی کہ بلوچستان کو ''آزاد‘‘ کراکر ہی پنجاب کے چنگل سے نکالا جاسکتا ہے‘ جیسا کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں کیا، (یہ ایک بین الاقوامی سازش
تھی)۔ بعض بلوچ سردار بلوچستان میں معاشی و سماجی تبدیلی نہیں چاہتے وہ Status Quo کے حامی ہیں۔ انہوں نے ان نوجوانوں کو مرکز کے خلاف مزیدورغلایا اور ہر طرح سے ان کی مدد کی تھی بلکہ مجھے بعض بلوچیوںنے بتایا کہ اب بھی کچھ سردار مرکز کے خلاف ایسا کررہے ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے گذشتہ دوکالموں میں لکھا ہے کہ دہشت گردی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے۔ پاک فوج نے بلوچی نوجوانوں کو فوج میں ملازمتیں دینے کے علاوہ انہیں تعلیم کی طرف راغب کرکے بلوچ معاشرے میں نئی سوچ کو جنم دیا۔ فوج کے ڈسپلن اوراُن کی تعلیمی و غیر نصابی سرگرمیوں نے بلوچ طلبا کو نہ صرف متاثر کیا بلکہ انہیں یہ احساس دلایا ہے کہ اگرترقی کرنی ہے تو تعلیم کا حصول اشدضروری ہے ‘جسے پاکستانی فوج کے علاوہ صوبائی حکومت بھی پورا کررہی ہے۔ اب اس تبدیلی کو روکنے کا سرداروں کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ انہیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ بلوچستان کا موجودہ سماج جامد نہیں رہ سکتا، تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ اور ترقی کے نئے امکانات کی روشنی میں ایک عام بلوچ نوجوان نئی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کا تہیہ کرچکا ہے‘ جو ان کا پاکستانی شہری کی حیثیت سے بنیادی حق ہے۔ پاکستان نیوی کے تحت چلنے والے سکولوں اورہسپتالوں میںنوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی ، کہ انہوںنے صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔
ایک اور عنصر جو بلوچستان کے عوام کی سوچ کو بدلنے میں معاون ومددگار ثابت ہورہا ہے، وہ پاک چین اقتصادی راہداری ہے‘ جس پر چین کی عوامی حکومت 46بلین ڈالر خرچ کررہی ہے۔ اس پر کام بھی شروع ہوچکا ہے‘ یہ دوسری بات ہے کہ وفاقی حکومت نا معلوم وجوہ کی بنا پر اسے متنازع بنانے کی کوشش کررہی ہے، جبکہ چھوٹے صوبوں کے اس ضمن میں تحفظات ہیں ،جنہیں دور کرنے کی سنجیدہ خلوص کے ساتھ کوشش نہیں ہو رہی۔ چین کی حکومت نے چھوٹے صوبوں کے احتجاج اور شکایتوں کا سخت نوٹس لیا ہے۔اس منصوبے سے نہ صرف بلوچستان کی مجموعی معاشی اور سماجی ترقی وابستہ ہے، بلکہ پورے پاکستان کے عوام کو اسکے ثمرات میسر ہوںگے ۔اس سلسلے میں وفاقی وزیر اقبال احسن کو چین کی تنبیہ کا احساس ہونا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ منصوبے کے متعلق تمام کوائف کو شفافیت کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ یہ عظیم منصوبہ تنازع کا شکار نہ ہونے پائے۔
بلوچستان کے عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ریاست سے ٹکرلینے کی صورت میں صوبے کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔ ہر چند کہ اس صوبے کی آبادی زیادہ نہیں ہے، بہ مشکل ایک کروڑ بنتی ہے۔ مختلف علاقوں میں جہاں پانی دستیاب ہے وہاں چند گھروں پر مشتمل لوگ آباد ہوجاتے ہیں ۔وہ بھیڑ بکریاں پالنے کے علاوہ چھوٹی موٹی کاشت کاری بھی کرتے ہیں۔ پانی کی شدید قلت کی وجہ سے بھر پور کاشت کاری نہیں کرسکتے، لیکن ڈیم بنا کر بارش کے پانی کو جمع کرکے پینے کے علاوہ زرعی ضروریات کے لئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں ایسے چھوٹے بڑے
کئی ڈیم بنائے گئے جن کی مدد سے بارش کے پانی کو جمع کرکے پینے اور زراعت کے لئے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو فوج میں شامل کرنے کا سہرا جنرل کیانی (ر) کے سر جاتا ہے جنہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کو شامل کرکے پاکستان کی فوج کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ جب بلوچ نوجوانوں کو فوج میںلینے کے سلسلے میں اشتہار دیا گیا تو ہزاروں بلوچ نوجوانوںنے درخواستیں دیں ، ان میں سے تقریباً چار ہزار نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ اب یہ بلوچی نوجوان تربیت حاصل کرنے کے بعد مختلف یونٹوں میں اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں ، ان نوجوانوں کی فوج میں شمولیت کے باعث بلوچستان کا سیاسی ومعاشی کلچر آہستہ آہستہ تبدیل ہورہا ہے، اور ان میں وطن سے محبت کے احساسات ابھر رہے ہیں۔ سوئی میں واقع چھائونی کو تعلیمی شہر میں بدل دیا گیا ہے، پاک نیوی کے سلسلے میں پہلے ہی اپنے دو کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ پاک بحریہ بلوچستان کے عوام کو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں مہیا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کررہی ہے۔ تاہم ابھی صوبے میں بہت کام کرنا باقی ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترقیاتی کاموں کو تیزی سے مکمل کرنے کی کوشش کرے تاکہ بلوچستان ترقی کی دوڑ میں دیگر صوبوں کے برابر آکر وطن عزیز کے استحکام میں اپنا بھر پور حصہ ڈال سکے۔