مسئلہ کشمیر کا حل

بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی مخلوط حکومت کے ساتھ مل کر ایک نئی چال چلی ہے،جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مزید فوجی دستے بھیجے جارہے ہیں (تقریباً17بٹالین) تاکہ آزادی کی تحریک کو کچل دیا جائے۔ واضح رہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں تقریباً سات لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں جو مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ مخلوط حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے، حالانکہ اس مخلوط حکومت میں بی جے پی شامل ہے، جو شاید پہلی مرتبہ یہاں اقتدار میں شریک ہوئی ہے۔ ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو وعدے پی ڈی پی نے کئے تھے، وہ سب کے سب سرد خانے کی نذر ہوگئے ہیں ، یہاں تک کہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کا وعدہ بھی دفا نہیں ہوسکا۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ہر طرف فوج ہی فوج نظر آرہی ہے، جو اس بات کی غمازی کررہی ہے، کہ مقبوضہ کشمیر میں حقیقی معنوں میں مارشل لاء لگایا جا چکا ہے۔ ممتاز کشمیری رہنمائوں کو گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے، اور مساجد کے سامنے پہرے بٹھادیئے گئے ہیں تاکہ نمازی نماز ادا کرنے کے بعد باہر نکل کر کسی قسم کا مظاہرہ نہ کرسکیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر کشمیری رہنما علی گیلانی نے یورپی یونین سے استدعا کی ہے کہ وہ اس صورتحال کا جائزہ لے کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ظلم وتشدد کو بند کرائیں۔ یہ اپیل اس لئے بھی کی گئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات کے اختتام کے فوراً بعد یورپی یونین نے انہیں شفاف انتخابات قرار دیا تھا او رکہا تھا کہ کشمیر میں ان انتخابات کے بعد سماجی و سیاسی حالات بہتر ہوجائیں گے اور جمہوری اقدار مستحکم ہوں گی، لیکن یورپی یونین کے ان تمام نیک خیالات کے اظہار کے باوجود جموں کشمیر میں حالات ساز گار نہیںہوسکے، اور نہ ہی جمہوری اقدار فروغ پاسکی ہیں،بلکہ جیسا کہ بالائی سطور میں لکھا گیا ہے کہ مزید تازہ دم فوجی دستے مقبوضہ کشمیرپہنچ رہے ہیں تاکہ حقِ خودارادیت کی تحریک کو مکمل طورپر کچل دیا جائے۔ ویسے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے سات لاکھ فوجیوں کی موجودگی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کی مثال اس وقت پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ نریندرمودی کی حکومت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پرنہ تو ذہنی طورپر تیار ہے اور نہ ہی اس کے سامنے اس سلسلے میں کوئی روڈ میپ ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، حقیقت سے روگردانی کے مترادف ہے۔
کشمیر روز اول ہی سے یعنی تقسیم ہند کے بعد سے ایک متنازعہ خطہ بن گیا تھا۔ خود اقوام متحدہ نے اس مسئلہ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ خطہ قراردیا ہے۔بعض بھارتی وزراء اپنے ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات میں یہ تسلیم کررہے ہیں کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، بھارت اور پاکستان کے درمیان پائیدار امن قائم نہیں ہوسکے گا۔ ابھی حال ہی میں راجیہ سبھا کے ایک ممبر پاکستان آئے تھے، جہاں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرزکے ممبران سے اپنے خطاب میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جنوبی ایشیا میں امن کا قیام کشمیر کے مسئلے کے حل سے وابستہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر مشرف کے دور میں یہ مسئلہ تقریباً حل ہوچکا تھا۔ سابق وزیرخارجہ خورشید قصوری نے اپنی کتاب میں تقریباً ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے، لیکن نریندرمودی کی حکومت اس مسئلہ کو حل نہیں کرنا چاہتی بلکہ وہ اس بات کے لئے بھی راضی نہیں ہے کہ آئندہ جب مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ بات چیت ہو تو اس میں کشمیری عوام کی قیادت کو شامل کیا جائے، حالانکہ اب تو امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ پاکستا ن اور بھارت کے درمیان آئندہ مذاکرات میں کشمیری رہنمائوں کو بھی شامل کرکے ان کے احساسات وجذبات کی روشنی میں اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے، لیکن یہ سوال اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا نریندرمودی اور ان کے بعض انتہا پسند وزرا ء اتنا کشادہ دل رکھتے ہیں کہ وہ کشمیری رہنمائوں کو بات چیت میں شامل کریں، اور اگر ایسا ممکن ہوا تو بہت حد تک کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
کشمیری عوام نے گذشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اپنی آزادی، سماجی اورمذہبی اقدار کے تحفظ اور فروغ کے لئے ووٹ کا پر امن طریقہ اختیار کیا تھا۔ کیا اب وہ مایوس نظر آرہے ہیں؟ مجھے تو کم از کم ایسا ہی محسوس ہورہا ہے، کیونکہ مفتی سعید کے انتقال کے بعد سرینگر سمیت مقبوضہ کشمیر میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل بگڑتے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت آزادی کی نئی تحریک کو جنم دے سکتے ہیں، جو پرامن نہیں ہوگی، بلکہ بھارتی فوجی تسلط کے خلاف جنگ وجدل سے بھر پور ہوگی۔
ہر سال کشمیر کے عوام 5فروری کو بڑے اہتمام اور فکری و سیاسی جوش و خروش کے ساتھ یوم کشمیر مناتے ہیں۔ اس دن کا مقصد صرف یہی ہے کہ کشمیری عوام کی بھارتی تسلط کے خلاف جدوجہد کو یاد رکھا جائے، اور اس کے ساتھ ہی اس کو جاری وساری بھی رکھا جائے۔ جیسے ہی یہ دن قریب آتا ہے، بھارتی حکومت اپنے روائتی ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے، اور کوشش کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اس دن کو نہ منائیں اور نہ ہی کوئی مظاہرہ کریں یا جلوس نکالیں، لیکن نہ صرف 5فروری کو بلکہ ہر روز کسی نہ کسی انداز میں یہ بہادر اور وفاشعار لوگ بھارتی تسلط و جبرکے خلاف مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے 26جنوری کو یوم آزادیٔ بھارت کے موقع پر سری نگر کے علاوہ دیگر علاقوں میں مکمل ہڑتال کرکے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و جور کو عالمی سطح پر آشکار کیا تھا۔ بھارت نے اس دن ہڑتال کو ناکام بنانے کے لئے لاکھ جتن کئے مگر بھارتی حکومت اور اس کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں مخلوط حکومت دونوں بری طرح ناکام رہے۔ عوام نے مکمل ہڑتال کرکے اپنے جذبات کا اظہار کیا ، کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، اور انہیں اس کا تسلط قبول نہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں