برطانیہ کے وزیر خارجہ فلپ ہومن نے حال ہی میں پاکستان کا دور کیا۔ اپنے قیام کے دوران انہوں نے وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف کے علاوہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سے بھی ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے میڈیا سے بھی بات چیت کی، اور مسئلہ کشمیر سے متعلق دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اس مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنا چاہئے۔ کشمیر سے متعلق ان کے خیالات پر بھارتی میڈیا نے بہت برا منایا (حسب عادت) لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا براہ راست تعلق مسئلہ کشمیر سے ہے جسے حل ہونا چاہئے، ورنہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کبھی بھی دیرپا امن قائم نہیں رہ سکے گا۔ مسٹر فلپ کے اس بیان کا مقبوضہ کشمیر میں زبردست خیر مقدم کیا گیا، اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ برطانیہ اس دیرینہ مسئلہ کے حل کے لئے کاوشیں جاری رکھے گا۔ اس وقت برطانیہ میں 15 لاکھ پاکستانی قیام پذیر ہیں‘ اور برطانیہ کی معیشت اور سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، ان کی اکثریت کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے‘ جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف مسلسل احتجاج کرکے ان کے مصائب کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے رہتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ایک اور پیش رفت امریکہ بہادر کی جانب سے ہوئی ہے۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے کہا ہے کہ کشمیر
بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع مسئلہ ہے جسے مذاکرات کے ذریعہ حل ہونا چاہئے۔ پاکستان میں امریکہ کے اس بیان کا حکومتی سطح کے علاوہ مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی خیر مقدم کیا گیا ہے، امریکہ کے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اس بیان میں بعض امریکی سینیٹرز کا خیال ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے پاک بھارت مذاکرات میں کشمیریوں کو بھی شامل کرنا چاہئے، جنہوں نے اپنی آزادی کے لئے ہزاروں مرد و زن کی قربانیاں دیں۔ واضح رہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے رہنمائوں کو مذاکرات میں شامل کرنے کے حق میں نہیں ہے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیری رہنمائوں کو شامل ہونا چاہئے کیونکہ اس مسئلہ کا اصل فریق یہی بہادر حریت پسند لوگ ہیں جنہوں نے بھارتی ظلم و جبر کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا‘ اور کر رہے ہیں۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اور ان کے حق خودارادیت کے سلسلے میں جواہر لال یونیورسٹی کی ایک پروفیسر ناوی دتا مینسن نے برملا کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے بلکہ بھارت نے ناجائز طور پر اس پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ ان کے ان خیالات سے بھارتی حکومت کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جواہر لال یونیورسٹی کے بعض طلبا نے ان کے خیالات کی پُرزور حمایت بھی کی ہے، جس کی پاداش میں دہلی کی پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔ گرفتار کئے جانے والوں میں جواہر لال یونیورسٹی یونین کے صدر کنہیا کمار بھی شامل ہیں۔ گرفتاریوں کے خلاف جواہر لال یونیورسٹی کے طلبا نے احتجاج کرتے ہوئے نریندر حکومت کے خلاف زبردست نعرے بازی بھی کی۔ پروفیسر ناوی دتا مینسن نے مزید کہا کہ ساری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، کشمیری عوام حق خود ارادیت کے لئے کئی دہائیوں سے جدوجہد کر رہے ہیں، جس میں اب تک ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ کشمیر یوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بھی یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازع ہے جسے استصواب رائے یعنی کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل ہونا چاہئے۔ دوسری طرف جواہر لال یونیورسٹی میں بی جے پی کی حمایت یافتہ طلبا ونگ نے پروفیسر ناوی دتا مینسن کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے انہیں پاکستان کا ایجنٹ قرار دیا۔
مقبوضہ کشمیر سے متعلق عالمی سطح پر ابھرنے والے خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ دونوں جنوبی ایشیا میں امن کے وسیع تر مفاد اور خود اپنے مفادات کی روشنی میں کشمیر کا پُرامن حل چاہتے ہیں۔ اگر ان دو بڑی طاقتوں نے بھارت کی حکومت پر زور دیا تو اس مسئلہ کا کوئی حل نکل آئے گا، دراصل امریکہ کو کشمیر کے سلسلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہئے، کیونکہ وہ اس پوزیشن میں ہے کہ اگر چاہے تو یہ مسئلہ حل کرا سکتا ہے۔ اب تو بھارت کے دانشور بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کا آئینی حق ملنا چاہئے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج کی مقبوضہ کشمیر میں موجودگی اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں۔ مزید برآں فوجی طاقت کے ذریعہ بھارت کب تک اس حصے پر قابض رہے گا؟ ایک نہ ایک دن بھارت کو مقبوضہ
کشمیر کے عوام کی امنگوں اور خواہشات کے سامنے جھکنا پڑے گا، جو اپنے سیاسی ثقافتی اور مذہبی حقوق کے لئے طویل عرصے جدوجہد کرتے ہوئے جانی و مالی قربانیاں پیش کر رہے ہیں، کشمیری نوجوان اپنے بزرگوں کی قربانیوں کے پیش نظر ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے بہیمانہ ظلم کے خلاف اپنی جدوجہد کو تیز کر دیا ہے، ان کا یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ بھارت فی الفور مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں ہٹا لے۔ پاکستان کے دانشوروں کا بھی یہی موقف ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے ضروری ہے کہ بھارت سب سے پہلے وہاں سے اپنی فوجیں ہٹا لے تاکہ استصواب رائے کے لئے حقیقی ماحول پیدا ہو سکے۔ دراصل جنوبی ایشیا میں اب ماحول بد ل رہا ہے۔ انتہا پسندی کے باوجود اس خطے کی اکثر آبادی پُرامن ماحول میں معاشی ترقی کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔ بدلتے حالات کا تقاضا ہے کہ ایسے تمام مسائل‘ جس میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہے‘ حل ہونے چاہئیں تاکہ عوام جنگی جنون کی گرفت سے نکل کر ایک آزاد اور پُرامن ماحول کی طرف آ سکیں اور باہم مل کر اس خطے سے غربت اور محرومی کے تکلیف دہ اثرات کو ختم کر سکیں۔ یہی راستہ شانتی اور امن کا ہے، بھارت کی قیادت کو سنجیدگی سے اس مسئلہ کے حل پر غور کرنا چاہئے۔