گزشتہ دنوں ایران کے صدر جناب حسن روحانی پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے وطن پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان میں ان کی زبردست پذیرائی ہوئی، وزیراعظم میاں نواز شریف معزز مہمان کا استقبال کرنے کے لئے چکلالہ ایئرپورٹ پر موجود تھے جبکہ صدر روحانی کو عزت واحترام کے ساتھ رخصت کرنے کے لئے صدر پاکستان جناب ممنون حسین ایئرپورٹ پر گئے۔ صدر روحانی کے پاکستان میں قیام کے دوران چھ مفاہمتی یادداشوں پر دستخط ہوئے جن کے مطابق ایران پاکستان کے ساتھ انرجی اور باہمی تجارت کے فروغ سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کرے گا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی جلدی مکمل کرلیا جائے گا، پاکستان اپنے حصے کی گیس پائپ لائن کی تعمیر کا جلد آغاز کرنے والا ہے، جس میں چند ماہ لگیں گے۔ صدر ایران کے دورے سے پاکستان اور ایران کے مابین جو غلط فہمیاں تھیں، وہ بھی کسی حد تک دور ہوگئی ہیں۔ اس ضمن میں ایرانی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بھارتی جاسوس کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات میں ایران پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔ واضح رہے کہ بھارتی جاسوس چاہ بہار میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا تھا، بلوچ علیحدگی پسندوں کی مالی مددکرنے کے علاوہ انہیں باقاعدہ دہشت گردی کی تربیت کے لئے بھارت بھی لے جاتا تھا۔ چنانچہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار راحیل شریف نے ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران بھارتی جاسوس کا مسئلہ اٹھایا اور ان سے استدعا کی کہ وہ اپنی سر زمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کو روکیں۔ صدر روحانی نے وعدہ کیا کہ وہ اس اہم مسئلے کی چھان بین کرنے کے علاوہ اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔
واضح رہے کہ دہشت گردی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ ماضی قریب میں ایران دہشت گردوں کی زد میں تھا؛ چنانچہ دہشت گردی ایران اور پاکستان کا مشترکہ مسئلہ ہے جس کو روکنے کے لئے دونوں ممالک کا تعاون ناگزیر ہے۔ اقتصادی پابندیاں اٹھانے کے بعد صدر روحانی کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ دو طرفہ تعلقات کو زیادہ مستحکم کیا جاسکے۔ پاکستان آنے سے قبل ایرانی صدر نے کئی دیگر ممالک کا دورہ کیا تھا، جن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہ تمام ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ایران میں سرمایہ کاری کریں اور باہمی تجارت کو فروغ دے کر خود اپنی اور ایران کی معیشت کو تقویت پہنچائیں۔ ماضی میں ایران پر اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوںکی وجہ سے ایران کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی تھی جبکہ ایران کی کرنسی کی قوت انتہائی نچلی سطح تک پہنچ چکی تھی، لیکن اب ایران آہستہ آہستہ اپنی معیشت کے حوالے سے طاقت پکڑ رہا ہے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنی تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانا چاہتا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے جناب حسن روحانی کو یقین دلایا ہے کہ ان کا ملک دوطرفہ تجارت کے فروغ کے علاوہ ہر شعبے میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے حسن روحانی کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان ایران سرحد پر مزید دوکراسنگ پوائنٹ قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ملک باہمی تجارت کو مزید آگے بڑھاسکیں۔ اس وقت ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم 275 ملین سے ڈالر سے زیادہ نہیں ہے جبکہ اس تجارت کو 5 بلین ڈالر تک لے جانے کے امکانات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ایرانی صدر نے وزیراعظم کویقین دلایا کہ ان کا ملک پاکستان کو 1000میگاواٹ سے 3000 میگا واٹ تک بجلی فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس وقت ایران 100میگا واٹ بجلی پاکستان کو فراہم کررہا ہے، جس کا زیادہ فائدہ بلوچستان کو پہنچ رہا ہے۔
ایرانی صدر نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور امید ظاہر کی کہ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کی مشترکہ کوششوں سے یہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا۔ افغانستان میں امن کے قیام سے اس خطے کے سیاسی و معاشی حالات پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ ایران افغانستان میں خانہ جنگی کو روکوانے کے سلسلے میں اپنا ہر قسم کا تعاون دینے کے لئے تیار ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں افغانی ابھی تک پاکستان اور ایران میں پناہ گزیں ہیں، سب سے زیادہ افغانی پناہ گزیں پاکستان میں موجود ہیں، جن کی دیکھ بھال کی مد میں پاکستان یومیہ لاکھوں روپیہ خرچ کررہا ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے پاک چین اکنامک راہداری کی کامیابی کے لئے اپنا تعاون پیش کیا۔ انہوںنے پاکستان کے بعض حلقوں میں پائی جانے والی اس غلط فہمی کو دور کردیا ہے کہ چاہ بہار کی بندرگاہ کی فعالیت گوادر بندرگاہ کو متاثر کرے گی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں بندرگاہیں باہمی تجارت کے فروغ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس خطے میں بحری اور بری راستوں کے ذریعے تجارت کو بڑھانے میں بڑی مدد گار ثابت ہوں گی۔ ایران جلد ریل اور سٹرک کے ذریعے چاہ بہار اور گوادر کی بندرگاہ کو ملانا چاہتا ہے تاکہ دونوں ملکوں کی تجارت کو تقویت مل سکے۔ ڈاکٹر حسن روحانی کے ہمراہ ایک بڑا ایرانی تجارتی وفد بھی شامل تھا جس نے اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقاتیں کیں جس کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ پاکستان کے تاجروں کو اب ایران جانا چاہئے اور وہاں کی مارکیٹ کا جائزہ لے کر اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس وقت ایران کو ہرچیز کی ضرورت ہے جس کو بہت حد تک پاکستانی تاجر پورا کرسکتے ہیں۔ ایران کے ساتھ تجارت کے فروغ کے ساتھ ساتھ ثقافتی تعلقات کی بڑی اہمیت ہے۔ ایران اور پاکستان دونوں اسلامی برادر ملک ہونے کے علاوہ عرصہ دراز سے ایک دوسرے کے ساتھ ثقافتی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل بھارت میں برطانوی راج سے بھی پہلے فارسی چھ سوسال تک ہندوستان کی سرکاری زبان رہی تھی۔ مغل بادشاہ فارسی زبان میں بات چیت کیاکرتے تھے؛ حلانکہ وہ ترک النسل تھے۔ دنیا بھر کے اہل تشیع مسلمان جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ایران جاکر امام رضاؓ کے روضے پر حاضری دیتے ہیں اور قرآن خوانی کرتے اور درود و سلام کا ورد کرکے روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ علامہ اقبال جن کو ایرانی اقبال لاہوری کہتے ہیں ایرانی سرزمین میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ علامہ اقبال کی فارسی شاعری کسی بھی بڑے ایرانی شاعر سے کم نہیں۔ اب ثقافتی رشتوں کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی سطح پر بھی پاک ایران دوستی مزید پھلے پھولے اور اس خطے میں امن کے کاز کو تقویت مل سکے۔