گزشتہ جمعہ کے روز واشنگٹن ڈی سی میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق عالمی کانفرنس ختم ہوگئی ‘اس دو روزہ کانفرنس میں پچاس سے زائد حکومتوں کے سربراہان اوردیگر تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ جوہری ہتھیاروں سے متعلق یہ چوتھی اور آخری کانفرنس تھی۔ اس سے قبل تین کانفرنسیں مختلف ممالک میں ہوچکی ہیں۔پہلی کانفرنس بھی امریکہ میں صدر، اوباما کی صدارت میں 2010ء میں ہوئی تھی۔ صدر اوباما جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کے سلسلے میں خاصے تشویش میں مبتلا ہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو اور کنٹرول کے سلسلے میں چار کانفرنسیں بلائیں‘ تاکہ جوہری ہتھیاروں کی تباہ کاریوں بارے عالمی رائے عامہ کے شعور کو بیدار کیاجاسکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایٹم بم کا سب سے پہلے استعمال خود امریکہ نے کیا تھا۔ 6اگست1945ء کو امریکہ نے پہلا ایٹم بم ''ناٹی بوائے‘‘ ہیرو شیما پرگرایا تھا جس میں ایک اندازے کے مطابق دولاکھ سے زائد افراد چشم زدن میں بھسم ہوگئے ۔ اتنی ہی تعداد میں زندہ رہ جانے والے افرادمعذور ہوگئے ‘ جو زندہ لاشیں بن چکے تھے۔9اگست کو امریکہ نے دوسرا ایٹم بم ناگا ساکی پر گرایا ۔ جس میں تقریبا اتنی ہی تعداد میں افراد ہلاک ہوئے۔ امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے استعمال کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈال کر شکست تسلیم کرلی ، پانچ سال قبل جاپان کی حکومت کی دعوت پر وہاں گیا‘ وہ ہمیں ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ایٹم بم کی تباہی سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ دونوں شہروں می جاپانی حکومت نے میوزیم قائم کئے ہوئے ہیں ‘جن میں ایٹم بموں سے ہلاک ہونے والوں کے ڈھانچے اور تصویریں رکھی ہوئی ہیں میوزیم کا منظر اتنا تکلیف دہ اور ہولناک تھا کہ میں وہاںزیادہ دیرنہ ٹھہر سکا۔ بعد میں ٹوکیو میں میرے اعزاز میں یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میں نے ایٹم بم کی تباہی سے متعلق یہ کہا تھا کہ آئندہ اس کا استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کسی ملک نے اس کا استعمال کیا تو پھر تیسری عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے، جو اس خوبصورت کرہ ارض کو ہمیشہ کے لئے نیست ونابود کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ سوال و جواب میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بھی ذکر آیا میں نے اپنی روائتی صاف گوئی سے کہا کہ پاکستان کو ایٹمی اسلحہ بنانے پر مجبور کیا گیا ہے، ہمارا پڑوسی ملک بھارت ہماری آزادی اور خود مختاری کے درپے ہے، اس ضمن میں میں نے بنگلہ دیش کے قیام کا ذکرکیا تو ایک بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی اس وقت کی حکومت نے سیاسی راستہ اختیار کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا جس کی وجہ سے بنگالی آپ کے خلاف ہوگئے۔ یوں بنگلہ دیش بنا۔میں نے جواب دیا کہ معاملہ اتنا آسان نہیںہے، جتنا آپ بتارہے ہیں، اندرا گاندھی نے اپنی فوج اور کچھ عالمی طاقتوں کے مشورے سے بہت پہلے ہی مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا منصوبہ بنالیا تھا، شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لئے بھارت کے ساتھ شامل تھا، (اب خود بھارت نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے) بہر حال میری گفتگوسے اتفاق کیا گیا۔ جاپانی اخبارات نے بھی اس کی اچھی کوریج کی۔ میرے اس جملے کو نمایاں طورپر شائع کیا گیا تھا کہ آئندہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ایٹمی پروگرام کا صحت اور زراعت کے شعبے پر اطلاق ہونا چاہئے، جیسا کہ دیگر ممالک کے علاوہ خود پاکستان میں ہورہا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو اور روک تھام کے سلسلے میں ہونے والی تازہ کانفرنس میںایک بار پھر پاکستان کا ایٹمی پروگرام زیر بحث آیا۔ جبکہ بھارت کے ایٹمی پروگرام سے متعلق سرسری انداز میںذکر کرتے ہوئے امریکی صدر اوباما نے کہا کہ دونوں ملکوںکو اپنے اپنے ایٹمی اسلحہ کے پروگرام کو کم کرتے ہوئے اس کی غیر معمولی حفاظت پر زور دینا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مہلک ہتھیار دہشت گردوں اور انتہا پسند وں کے ہاتھ لگ جائیں‘ پاکستان کے نمائندے جناب طارق فاطمی نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ پاکستان ذمہ دار ملک ہے، اس کے ایٹمی اثاثے بالکل محفوظ ہیں ، دس ہزار سے زائد فوجی جوان ان کی حفاظت پر مامور ہیں، جہاں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی رسائی تقربیاً نا ممکن ہے، پاکستان کی اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت سے متعلق یہ وضاحت نئی نہیںہے، بلکہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کی جانب سے امریکہ کو کئی بار باور کرایا جاچکا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کرنا جانتا ہے، اس ضمن میں کسی ملک کو تشویش میں مبتلا نہیںہونا چاہئے، لیکن ان تمام وضاحتوں کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام یہود اور ہنود کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے، وہ اس لئے کہ پاکستان مسلمان ملک ہے، یہ واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی اور اسلحہ موجود ہے، اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی بھی!جس کا تمام سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم کے سر جاتا ہے ڈاکٹر صاحب نے جان خطرے میں ڈال کر یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو منتقل کی ، اگر پاکستان ایٹم بم نہیں بناتا تو بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر حملہ کر سکتا تھا، اور آج بھی اس کے پاکستان کے خلاف مکروہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیںہیں۔ اس کے تنخواہ دار ایجنٹ اور دہشت گرد پاکستان کے مختلف حصوں میں چھپے ہوئے ہیں اور اندر سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی حرکتوں میںمصروف ہیں، اگر پاکستان کے خفیہ ادارے چابک دستی کا مظاہرہ نہ کریں تو بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کرنے سے باز نہیں آئے گا، بھارت کا یہ ایجنڈا تحریری طورپر موجود ہے جسے پاکستان کے عوام کو سمجھنا ‘اور وطن کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت چوکس بھی رہنا چاہئے۔
جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو اور ان کی تخفیف سے متعلق اس عالمی کانفرنس میں شمالی کوریا پر تنقید کی گئی جس کا ایٹمی پروگرام بقول امریکی صدر‘ عالمی امن کے لئے خطرے کا باعث بن رہا ہے اور دیگر ملکوں کو بھی اس سے متعلق گہری تشویش لاحق ہے، اس وقت شمالی کوریا پر اس کے میزائل اور ایٹمی پروگرام کے ضمن میں اقتصادی پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں ، جبکہ اُس کے بعض دوست ممالک سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اسے میزائل اور ایٹمی ہتھیاربنانے سے روکیں ‘جن کا اگر استعمال ہوگیا تو جنوبی مشرق ایشیا کے ممالک بے پناہ تباہی سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اس اہم عالمی کانفرنس میں روس نے شرکت نہیں کی تھی بلکہ روسی صدر پیوٹن نے یہ کہا تھا کہ ہم جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کے سلسلے میں امریکہ کے کی ڈکٹیشن قبول نہیںکریں گے، بلکہ اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے مہلک ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔