قوم کو بیدار رہناہو گا!

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے، جس کی معاشی شرح نمو 4 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس شرح نمو کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے ملک اور عوام کو بے پناہ مسائل درپیش ہیں‘ موجودہ حکومت یا اس سے قبل ماضی کی حکومتیں جن کا موثر اور ٹھوس حل نکالنے میں ناکام رہی ہیں۔ ایک پریشان کن مسئلہ‘ جو پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے‘ وہ ہر شعبہ میں بڑھتی ہوئی کرپشن ہے۔ اگر وسیع پیمانے پر ہونے والی اس کرپشن کا نصف بھی آہنی ہاتھوں سے روک دیا جائے‘ تو پاکستان کی معیشت کو مطلوبہ قوت حاصل ہو سکتی ہے اور دوسری طرف ہمیں بھیک مانگنے کے لئے بار بار آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا ہو گا، لیکن کرپشن روکنے کی اختیار کی گئی تمام تر حکمت عملی ماضی میں بھی اور اس وقت بھی ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ اس صورتحال سے پاکستان دشمن طاقتیں پورا پورا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ان میں بعض این جی اوز بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی عنوان سے پاکستان کے موجودہ حالات کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں‘ جیسا کہ یہ ملک خدانخواستہ ناکام ریاست میں تبدیل ہو رہا ہے، حالانکہ پاکستان اس خطے کے بہت سے ملکوں سے زیادہ اچھا ملک ہے۔ بھارت سے بھی زیادہ اچھا‘ اور بہتر جہاں غربت کا تناسب دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ ہے‘ اور جہاں انتہا پسندی عروج پر ہے۔ دنیا کی اس سب سے بڑی جمہوریہ میں مسلمانوں‘ اور دوسری اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے‘ اس کی تازہ مثال حال میں دہلی میں ہونے والے ایک سیمینار سے دی جا سکتی ہے، جس کے شرکا نے بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ یہ کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری کی بھی حیثیت حاصل نہیں ہے، جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے، اقلیتوں کو ہر قسم کی مذہبی، ثقافتی اور معاشی آزادی حاصل ہے، لیکن اگر پاکستان میں کسی وقت کسی اقلیتی فرقے کے ساتھ کچھ ہو جاتا ہے‘ تو یہ این جی اوز اس کو اس طرح ''سنگین مسئلہ‘‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں جیسے پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں‘ اور ان کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس مذموم پروپیگنڈے میں پاکستان میں بھارتی لابی بھی بے حد سرگرم ہے‘ جس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کی ساکھ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جائے تاکہ یہاں افراتفری میں اضافہ ہو جائے اور اس کے نتیجے میں ترقیاتی کام موخر ہو جائیں۔ اس ضمن میں کسی نے سچ کہا ہے کہ پاکستان کو سب سے زیادہ خطرہ اندرونی دشمنوں سے ہے‘ جو مختلف سیاسی‘ مذہبی جماعتوں میں شامل ہو کر پاکستان کے خلاف مخصوص ایجنڈے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان عناصر کا دوسرا کام جو انہیں باہر سے سونپا گیا ہے، پاکستان کی فوج کو کسی نہ کسی انداز میں بدنام کرنا ہے، خصوصیت کے ساتھ مشرقی پاکستان کے سقوط کے حوالے سے‘ حالانکہ ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ سیاسی حالات کو انارکی میں تبدیل کر دیا تھا، اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے؛ تاہم یہ لکھنا بہت ضروری ہے کہ اس میں ہماری اپنی غلطیاں بھی شامل تھیں‘ جن کو بھارت نے اپنے حق میں استعمال کیا۔ دراصل یہ عناصر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا حوالہ دے کر پاکستان کے اندر ان قوتوں کو براہ راست تقویت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، جو اس وقت بھی پاکستان کو دولخت کرنا چاہتے ہیں۔ خاکم بدہن‘ بھارت کی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا بنیادی منشور یہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کو دربارہ بھارت کے اندر ضم کر لیا جائے۔ یہ اکھنڈ بھارت کا وہی پرانا تصور ہے‘ جسے بڑی چالاکی اور عیاری سے آنجہانی گاندھی جی نے پیش کیا تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان چندماہ کے اندر دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے گا، کیونکہ مسلمانوں کو جدید طرز کی حکومتیں چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ لیکن ان کے پاکستان کے متعلق تمام منفی خیالات مانند کہر فضا میں تحلیل ہو چکے ہیں، اور پاکستان قائم ہے اور قائم رہے گا، (انشاء اللہ)۔
پاکستان کے خلاف ہونے والی اندرونی سازشوں کا تعلق ہمارے تعلیمی اداروں میں تحریک پاکستان سے متعلق نصاب اور اس کے مواد سے بھی ہے۔ بعض مدرسوں میں بھی فرقہ پرستی کا پرچار کیا جاتا ہے۔ کچھ اس قسم کا مواد نظروں سے گزرا ہے‘ جس کو پڑھ کر نوجوانوں کا ذہن بھٹک سکتا ہے۔ اس لئے وزارت تعلیم اور وزارت مذہبی امور‘ خصوصیت کے ساتھ نظریاتی کونسل کو اس سلسلے میں سنجیدگی سے جانچ پڑتال کرنا چاہئے، اور جہاں بھی پاکستان کی تحریک یا مذہب سے متعلق بے بنیاد لغو یا گمراہ کن مواد موجود ہے یا پھر اس کی تبلیغ کی جا رہی ہے، اُسے نصاب سے حذف کر دینا چاہئے، اور ایسا مواد شائع کرنے والوں سے سختی کے ساتھ باز پرس ہونی چاہئے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان دشمن طاقتیں سی پیک یعنی پاکستان چین اقتصادی راہداری کے روٹ سے متعلق عوام کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ حالانکہ سی پیک سے متعلق اب کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ پہلے کچھ سیاست دانوں نے اس سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا، لیکن بعد میں افہام و تفہیم سے اس کو حل کر لیا گیا، لیکن اب بھی بعض حلقوں کی جانب سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، حالانکہ اس عظیم منصوبے سے متعلق تمام مالی امور چین کے پاس ہیں‘ اور چین ہی 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، جو کہ اس سے پہلے کسی ملک نے نہیں کی تھی۔ یقینا اس میں چین اور پاکستان دونوں کا مفاد ہے اور دونوں ممالک اپنی گہری دوستی کے پس منظر میںیہ سمجھ رہے ہیں کہ بعض پڑوسی ممالک اس منصوبے کے خلاف ہیں اور اس منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، حالانکہ اس منصوبے سے اس خطے کے تمام ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ دراصل موجودہ حالات میں پاکستان کے عوام میں ملک سے محبت اور آپس میں اخوت کے جذبات پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک میں سماجی و معاشی مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ملک دشمنی کے زمرے میں آتا ہے‘ جو ہر صورت میں ناقابل قبول ہے، ذرا سوچئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں