امریکہ کا اعلان کردہ دہشت گرد

امریکہ نے بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندرمودی کو گجرات میں 2002ء میں مسلمانوں کے قتل عام کے پس منظر میں دہشت گرد قرار دیا تھا، اور اس کی امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی تھی بلکہ اسے امریکہ کا ویزا دینے سے بھی صاف انکار کردیا تھا، اب امریکہ کی جانب سے اسی نامزددہشت گرد نریندر مودی کو سرخ قالین بچھا کر اس کا استقبال کیا جارہا ہے، بلکہ اسے امریکی کانگریس سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی بخشا ہے۔ امریکہ کی اس بدلتی ہوئی دوغلی پالیسی سے متعلق مشہوروممتاز دانشور جناب نوم چومسکی نے درست کہا ہے ''کہ امریکہ کی کوئی پالیسی نہیں ہے ۔صرف اپنے مفادات کی خاطر یہ ملک پوری دنیا میں فساد پھیلانے کا موجب بنا ہوا ہے‘‘۔ امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے امریکہ کی جو چمچہ گیری کی ہے اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے یہاں تک کہ اس نے کیپٹل ہل کو (Capital Hill)کو مندر سے تعبیر کرتے ہوئے امریکی جمہوریت کو دنیا میں امن وانصاف کے فروغ کا مرکز قرار دیا ہے، حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کی گن ڈپلومیسی نے دنیا بھر میں کروڑوں معصوم انسانوں کا خون بہایا ہے۔ مودی کے ہاتھ خود بھی مسلمانوں کے علاوہ بھارت میں دیگر اقلیتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کو امریکہ بہادر کی جمہوریت میں انسان دوستی کا پہلو نظر آرہا ہے۔ مودی نے کانگریس کے ارکان سے خطاب کے دوران ستمبر 2008ء میں بمبئی کے واقعہ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اس موقع پر امریکہ نے بھارت کی جو مدد کی ہے وہ اس کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ بمبئی سے متعلق ان کا اشارہ پاکستان کی طرف تھا۔ واجپائی کا حوالہ دیتے ہوئے مودی نے کہا کہ امریکہ اور بھارت فطری دوست ہیں اور دونوںدہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
امریکہ نے نریندرمودی کا جس طرح والہانہ استقبال کیا ہے‘ اس کا مطلب ومقصد صرف یہی ہے کہ بھارت کو معاشی وفوجی اعتبار سے اتنا طاقتور بنا دیا جائے کہ وہ بیک وقت چین اور پاکستان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتوں سے معمور ہو جائے۔ چین بھی اس حقیقت کو بہت پہلے بھانپ چکا ہے خصوصیت کے ساتھ امریکہ اور بھارت دونوں باہم مل کر جس طرح سائوتھ چائنا سمندر پر اپنا قبضہ اور اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں وہ چین کو قبول نہیں ہے، بلکہ صدیوں سے سائوتھ چائنا سمندر اور اس کے جزائرچین کا حصہ رہے ہیں۔
مودی کے تین روزہ امریکی دورے سے پاکستان کو بھی گہری تشویش ہے وہ اس لئے کہ بھارت امریکہ کی ایما پر پاکستان کو تباہ کرنے اور اس کو اندرونی طورپر اپنے ایجنٹوں نے ذریعہ معاشی طورپر مفلوج کرنے کے پالیسی پر گامزن ہے۔ مودی اور اس کے انتہا پسند آر ایس ایس کے ساتھیوں کو اب اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر کوئی قابل ذکر قیادت موجود نہیں ہے۔میاں نواز شریف اس وقت عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور زیر علاج ہیں ، تاہم عارضہ قلب میں مبتلا ہونے سے پہلے وہ مودی کے زبردست حامی تھے، جس طرح انہوںنے گجرات کے معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کے قاتل کو اپنے گھر پر مدعو کیا تھا، اس کو پاکستان کی اکثریت نے برا منایا تھا بلکہ مذمت بھی کی تھی۔ یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک بیمار وزیراعظم ویڈیولنک کے ذریعہ پاکستان کے معاملات چلارہا ہے۔ ماضی میں سابق گورنر جنرل غلام محمد کی مثال دی جاسکتی ہے، جو تمام تر بیماریوں کے باوجود ملک کے نظم ونسق چلا رہا تھا۔ اب اسے تاریخ میاں نواز شریف کی صورت میں دوہرارہی ہے چنانچہ مودی اور اس کے انتہا پسند ساتھی پاکستان کی اس مجموعی صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھا کر اس خطے کے تمام ممالک کے علاوہ امریکہ سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی اپنے ملک کے مفادات کی روشنی میں درست سمت کی طرف جارہی ہے، چنانچہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارت کی اس جارحانہ خارجہ پالیسی کے سلسلے میںپاکستان کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں؟ کیا پاکستان کو ایسے کمزور وزیراعظم اور ان کے چند حواریوں کی ذمہ داری میں دیا جاسکتا ہے؟ مزیدبرآں اگر کل کلاں اس خطے میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو وہ کون سا فرد ہوگا جو قوم اور ملک کے تحفظ کے لئے فیصلہ کرے گا؟ جہاں تلک عوام کا تعلق ہے تو اب پاکستانی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، انہیں سیاست دانوں نے اپنی ناقص پالیسیوں اور کرپشن سے اتنا نڈھال کردیا ہے کہ وہ سڑک پر آکر حکومت کے خلاف کسی قسم کا موثراحتجاج کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ایک طرح سے پاکستان کے عوام کی اکثریت قدیم زمانوں کے غلاموں کی زندگی بسر کررہی ہے۔ پارلیمنٹ کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے، میاں صاحب نے پارلیمنٹ کو بیمار بنادیا ہے، اب اس وقت صرف فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جس کو حالات کی سنگینی کا احساس اور ادراک ہے بلکہ شدید احساس ہے ، پاکستانیوں کی اکثریت فوج کی طرف دیکھ رہی ہے، جو مصیبت کے ہر موقع پر عوام کے درمیان موجود رہتی ہے اور ان کی داد رسی کرنے میں کسی قسم کی کسر اٹھا نہیں رکھتی ۔تو کیا فوج کو اقتدار سنبھال لینا چاہئے، کہ اس سے قبل بہت دیر ہوجائے؟ اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے؟ یقینا پاکستان کے موجودہ حالات سے گھبرائے ہوئے لوگ اسی قسم کی سوچ کے حامل ہیں تاہم اگر فوج نے یہ قدم اٹھالیاتو پھر کچھ عرصہ کے بعد یہی لوگ فوج کے خلاف اپنے منفی جذبات کا اظہار کرنے سے باز نہیں آئیں گے، اور دنیا بھر میں فوج کے امیج کو مسخ کرنے کی کوشش کریں گے، اس لئے پاکستان کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات کا تقاضہ ہے کہ فوری طورپر Snap Electionکا اعلان کردیا جائے، تاکہ ایک نئی سیاسی قیادت آکر ملک کا نظم ونسق چلاسکے اور حالات کو قابو میں لانے کیلئے جنگی بنیادوں پر کوشش کرے ورنہ بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ اس وقت ملک میں کسی قسم کی عملی حکومت نہیں ہے، کرپشن ‘نااہلی اور اقرباپروری کے ساتھ ساتھ صوبائی عصبیت نے اس ملک کے قیام کی بنیادی اقدار کو چیلنج کیا ہے، جس کا ازالہ بہت ضروری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک صرف چند امیر حکمرانوں کے لئے بنا ہے، جنہوںنے بے پناہ لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ ملک کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے، بلکہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں میں گروی رکھ دیا ہے، جبکہ دوسری طرف عوام مفلسی اور محرومیوں کے اندھیروں میں دھکے کھا رہے ہیں، یہ حقیقت اگرچہ اپنی جگہ تلخ ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ وقت کا تقاضا ہے، اب بھی احساس نہ کیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں