کراچی میں خصوصیت کے ساتھ اور سندھ میں بالعموم رینجرز اور پولیس سماج دشمن عناصر کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ رینجرز فورس گزشتہ اٹھائیس سال سے کراچی میں مقیم ہے لیکن ابھی تک حقیقی معنوں میںکراچی میں امن کے امکانات روشن نہیں ہو سکے؛ حالانکہ سماج دشمن عناصرکا مقابلہ کرتے ہوئے سندھ پولیس اور رینجرز نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ کراچی کے عوام رینجرز کے ساتھ تعاون کرنے میں کسی پس و پیش کا مظاہرہ نہیں کرتے اور حقیقت یہ ہے کہ رینجرز کی کارکردگی کی وجہ سے گزشتہ ڈھائی برسوں میں امن کے حوالے سے بہتری آئی ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں نے بھی اس ضمن میں اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے کیونکہ کراچی کی معاشی سرگرمیوں کے جاری رہنے میں ہی پاکستان کی بھلائی اور بہبود وابستہ ہے۔ تاہم یہ بات بھی کراچی کے باشعور افراد محسوس کر رہے ہیں کہ اسٹریٹ کرائمز میں کوئی کمی نہیں آئی؛ بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز میں ملوث زیادہ تر نوجوان شامل ہیں جو پستول دکھا کر کراچی کے باسیوں کو لوٹ رہے ہیں۔ اگر کوئی شخص مزاحمت کرتا ہے تو وہ فوراً اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ رینجرز فورس اس صورت حال کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ منگل کے روز ہونے والی اپیکس کمیٹی میں اس مسئلہ پر غور کیا گیا تھا جس میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور انہیں آپریٹ کرنے کے لئے ایک علیحدہ اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یقیناً اس اتھارٹی کے قیام سے اسٹریٹ کرائم کے علاوہ دن دہاڑے قتل و غارت گری کرنے والوں کی بھی پکڑ دھکڑ ممکن ہوسکے گی۔ اپیکس کمیٹی کے یہ تمام فیصلے انتظامی امور سے متعلق ہیں، یعنی اس کے ذریعہ کرائمز کی روک تھام کے لئے ایک موثر طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے، لیکن کراچی کے نوجوانوں کا اصل مسئلہ معاشی ہے کیونکہ ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی میں کئی برسوں سے نہ تو بیرونی سرمایہ آیا ہے اور نہ ہی مقامی سرمایہ داروں نے بڑھ چڑھ کر شہر میں سرمایہ کاری کی ہے؛ بلکہ مقامی سرمایہ کار ابھی تک تذبذب کی حالت سے دوچار ہیں۔
موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی مقامی سرمایہ دار وں کی حوصلہ افزائی کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں، حالانکہ اس وقت کراچی کے مختلف صنعتی علاقوں میں چار سو سے زائد فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ فیکٹریوں کو سرمائے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے بحال کردیا جائے تو کراچی کے سینکڑوں بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں مل سکتی ہیں، لیکن سندھ کی حکومت نے کراچی کے اس پہلو پر غور نہیں کیا۔ اسٹریٹ کرائمز میں ملوث تمام نوجوان جرائم پیشہ نہیں ہیں، بلکہ ان میں پڑھے لکھے بھی ہیں لیکن کیونکہ ملازمتوں کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ان کے پاس نہ تو سفارش ہے اور نہ ہی رشوت دینے کے لئے پیسے، اس لئے یہ بآسانی جرائم پیشہ عناصر کے گروہ میںشامل ہوکر یہ کام کرنا شروع کردیتے ہیں۔۔۔۔لیکن بادل نخواستہ!
جہاں تک حکمران پارٹیوں کا تعلق ہے تو ان کے اکثر و زراء معقول رقم لے کر ہی نوجوانوں کو نوکریاں دیتے ہیں اور ان کی کوئی گارنٹی بھی نہیںہوتی۔ ان کے ذہنوں پر یہ خوف طاری رہتا ہے کہ کسی بھی وقت ان کی نوکری چھن جائے گی۔ سندھ کے علاوہ وفاقی حکومت کو بھی کراچی کے اس مسئلہ پر نہ صرف غور کرنے بلکہ اس کا فوری طورپر کوئی حل تلاش کر کے اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک کراچی میں روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوںگے نوجوان اسٹریٹ کرائم میں شامل ہوکر معاشرے کے استحکام کو چیلنج کرتے رہیں گے۔
محض اسلحہ کی طاقت سے کراچی یا ملک کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں جرائم کی شرح کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر نوجوان کو معاشی تحفظ حاصل ہوجائے تو وہ جرائم کی طرف کبھی راغب نہیںہوں گے۔ حکومت کا یہ تضاد بھی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ان کے وزراء اور سرکاری افسران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اس وقت پاکستان میں 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نوجوان کے لئے حکومت کیا سہولتیں پیدا کر رہی ہے؟ کیا حکومت نے ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے یا اس مقصد کے لئے معاشرے میں ایسا تخلیقی وتعمیری ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی مدد سے یہ خود اپنے اور والدین کے لئے معاشی سہارا بن سکیں؟ میرا خیال ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا۔ نوجوانوں کے لئے قرضہ اور روزگار کی اسکیم بھی کامیابی نہیں چل سکی، اندھوں نے اپنے اپنوں کو ریوڑیا ں بانٹی ہیں۔ کراچی کے مسئلہ کا ایک ٹھوس حل یہ ہے کہ یہاں کی بیمار صنعتوں کو بینکوں کی مدد اور سرمایہ داروں کی مدد سے بحال کیا جائے تاکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوسکیں۔ کرائم کا براہ راست تعلق غربت اور بے روزگاری سے ہے، اگر حکومت غربت ختم نہیں کرسکتی تو کم از کم بے روزگاری میں تو کمی لا سکتی ہے۔ کراچی میں ایسے اہل ثروت اور دولت مند افراد کافی تعداد میں موجود ہیں (بلکہ ان کے پاس کارخانے چلانے کا تجربہ بھی ہے) جن کو اگر حکومت اعتماد میں لے کر ان کو یہ ذمہ داری سونپ دے تو چمن میں دیدہ ور پیدا ہوسکتے ہیں۔ جتنا سرمایہ لا اینڈ آرڈر پر خرچ کیا جا رہا ہے اگر اس کا آدھا نوجوانوں کے لئے روزگار پیدا کرنے میں صرف کیا جائے تو کراچی سمیت ملک بھر میں کرائم کی شرح میں نمایاں کمی آسکتی ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کو معاشرے کے لئے مفید بنانے کے لئے کیا حکومت ذہنی طورپر تیار ہے؟ میرا خیال ہے کہ حکومت اس اہم مسئلہ پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔ اگر حکومت کے کرتا دھرتا خود کرپٹ ہوں اور بد عنوانی سکہ رائج الوقت بن چکی ہو تو معاشرے کی اصلاح کیونکر ممکن ہوسکے گی؟ محض طاقت اور اسلحہ کے زور پر کراچی میں کرائم کی شرح کو کسی حد تک کم تو کیا جاسکتاہے لیکن اصل مسئلہ غربت اور بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ خوفناک فاصلہ جو امیر وں اور غریبوں کے درمیان ہر روز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ فاصلہ معاشرے کی تہہ میں ایک طوفان کی پرورش کررہا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ کر ان کے محلوں کو خس و خاشاک کی طرح بہاکر لے جائے گا۔ ڈریے اس وقت سے!