گزشتہ دنوں وارسا (پولینڈ) میں نیٹو کا دو روزہ اجلاس ختم ہوگیا۔ اس اجلاس میں نیٹو کے تمام ممبران نے شرکت کی اور یہ عہد کیا کہ اس ''دفاعی ادارے ‘‘ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جائے گا۔ اجلاس میں افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی اور ان کی حکومت میں شامل ان کے ساتھی اور چیف ایگزیکٹو جناب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے۔ اشرف غنی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف کم و بیش وہی کلمات ادا کئے جو وہ اکثرکرتے رہتے ہیں۔ پاکستان پر تنقید کرنے کا مطلب یہ تھا کہ نیٹو میں شامل ممالک کو یہ باور کرایا جائے کہ افغانستان کی خراب داخلی صورت حال اور اس کی کمزور سکیورٹی فورسز کی طالبان کے خلاف میدان جنگ میں ناکامی کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے، جو ''اچھے‘‘ اور ''برے‘‘ طالبان کے درمیان فرق پیدا کرکے افغانستان میں امن کے قیام کو ناکام بنا رہا ہے۔ افغان صدر نے یہ بھی کہا کہ اس خطے کے تمام ممالک افغانستان میں قیام امن میں تعاون کر رہے ہیں اور ہمیں اس حمایت سے فائدہ بھی ہوا ہے، لیکن اس ضمن میں پاکستان کا رویہ مختلف ہے۔ انہوں نے اپنے ''ارشادات‘‘ میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھاکہ جن چار ممالک کی مدد سے افغانستان میں طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات اور مفاہمت کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس کی ناکامی کی وجہ بھی صرف پاکستان ہے۔ اشرف غنی نے یہ بھی کہا کہ افغانستان کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے جس کا امریکہ اور نیٹو کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور افغانستان سٹریٹیجک پارٹنر ہیں۔
نیٹو کے اجلاس میں افغان صدر کی پاکستان پر بے جا اور غیر ضروری تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی حکومت طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات کرنے کے بجائے طاقت اور تشدد کے استعمال پر زیادہ یقین رکھتی ہے؛ حالانکہ ان کے مربی اور محسن امریکی صدر بارک اوباما نے اسی اجلاس میں بڑی وضاحت سے اپنے اس عزم کو دہرایا کہ افغانستان میں امن طالبان کے ساتھ سیاسی مذاکرات سے ہی جڑا ہوا ہے۔ انہوںنے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں 8500 فوجیوں پر مشتمل امریکی فوج 2016ء کے بعد بھی افغانستان میںرہے گی(یاد رہے کہ قندھار اور جلال آباد میں ان کی چھائونیاں بنی ہوئی ہیں۔) اس کے علاوہ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ 2020ء تک نیٹو کے علاوہ دیگر ممالک بھی افغانستان کی مالی مدد کرتے رہیں گے۔دوسرے لفظوں میں آئندہ چار سال امریکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل پر بھی زور دیتا رہے گا، جس کے لئے اسے پاکستان اور چین کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی۔
تاہم جس طرح صدر اشرف غنی نے نیٹو کے اجلاس میں پاکستان کے بارے میں اپنی منفی سوچ کا اظہار کیااس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر پاکستان کے لئے آئندہ نئے مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ بھی پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کو ختم کرنے سے متعلق غیر ضروری زور دیتارہتا ہے؛ حالانکہ حقانی نیٹ ورک کی اصل طاقت اور مرکز افغانستان ہی ہے، جہاں امریکہ اور نیٹو کی فوجیں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ افواج افغان فورسز کی میدان جنگ کے علاوہ فضائی مدد بھی کررہی ہیں۔
گزشتہ پندرہ برسوں سے امریکہ اور اس کے چالیس سے زیادہ اتحادی ممالک افغانستان میں ''جمہوریت‘‘ کے قیام
اور طالبان کو میدان جنگ میں شکست دینے کے لئے برسر پیکار ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے تقریباً ڈھائی ہزار فوجی اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اسی طرح سیکڑوں افغان شہریوں کو بھی ہلاک کیا جا چکا ہے، جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ افغان طالبان ابھی تک امریکہ، نیٹو اور افغان فوجیوں سے لڑ رہے ہیں۔ ان کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ امریکہ سمیت تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں، اس کے بعد ہی سیاسی مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے اپنے تئیں طالبان اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی کئی دفعہ کوششیں کی ہیں، لیکن کامیابی نہیںہوسکی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران کوئی لچک نہیں دکھا رہا ہے۔ محض یہ کہنا کہ طالبان ہتھیار ڈال دیں اور حکومت کے ساتھ شامل ہوجائیں یہ افغان طالبان کے لئے ناممکن ہے۔
اسی نیٹو کانفرنس کے پس منظر میں سب سے زیادہ خطر ناک اور پاکستان دشمنی پر مبنی مشورہ زلرمے خلیل زاد نے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ، پاکستان کو تنہا کر دینے کی پالیسی اختیار کرے اور اسے مجبور کرے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کی میزپر لانے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں برئوکار لائے اور حقانی نیٹ ورک سے اپنا رشتہ توڑ لے۔ انٹرنیشنل پریس کے مطابق ان کے الفاظ یہ تھے:
Zalmay Kahalilzad a US diplomat of Afghan origin has advised the US government to adopt a policy of total isolation against Pakistan and send Islamabad a strong signal to face the prospect of becoming a second North Korea if it continues destabilising Afghanistan by supporting the Taliban and Haqqani network.
زلمے خلیل زاد کے یہ خیالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آئندہ برسوں میں امریکہ، افغانستان، بھارت اور اس کے اتحادی پاکستان کے لئے کتنی مشکلات پیدا کرسکتے ہیں؛ حالانکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس خطے کے تمام ممالک سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، اس کے باوجود افغانستان میں امن کا قیام افغان طالبان کے رویے سے مشروط ہے، جو گزشتہ پندرہ برسوں سے غیر ملکی فوجیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ دراصل افغانستان میں امن کی چابی طالبان کے پاس ہے۔