گزشتہ جمعہ کی شب ترکی میں عوام اپنے صدر طیب اردوان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور فوج کے ایک طبقے کی بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ یقینا یہ وہاں کے عوام کی بہت بڑی فتح ہے۔ پاکستان کے سیاست دانوں نے اپنے بیانات میں عوام کی قوت کی اعتراف کرتے ہوئے اس کو جمہوریت کی فتح قرار دیا اور ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستانی عوام کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر پاکستان میں فوج نے انقلاب لانے کی کوشش کی تو پاکستانی عوام ترکی کے عوام کی طرح سڑکوں پر نکل آیں گے اور فوجی انقلاب کو ناکام بنا دیں گے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ترکی کی حکومت خصوصیت کے ساتھ طیب اردوان 2003ء سے چلارہے ہیں، انہوںنے اس طویل عرصے میں یعنی13 سال کے دوران عوام کی بے لوث خدمت کی ہے، ترکی جس کو یورپ کا مرد بیمار لقب سے یاد کیا جاتا تھا، اب یورپ کا ابھرتا ہوا مردخوشحال بن چکا ہے، عوام کا معیار زندگی بلند ہو گیا ہے جبکہ اس میں روز افزوں اضافہ بھی ہورہا ہے، قوی معیشت کی شرح نمو 5فیصد کے قریب ہے جو ترکی کے تمام پڑوسی ممالک جس میں یورپ بھی شامل ہے، اس سے زیادہ ہے ، ترکی نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے تمام قرضے اتار دیئے ہیں جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ترک عوام کی تعلیم پر حکومت 5فیصد سے زائد رقم خرچ کررہی ہے، تعلیم کا تناسب 80 فیصد سے زائد ہے جومشرق وسطیٰ کے تمام ممالک سے زیادہ ہے مزید برآں ترکی یورپ کے علاوہ جنوبی ایشیا میںاپنی تجارت کے حوالے سے بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جس میں پاکستان کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات انتہائی مضبوط اورمستحکم ہیں ۔
دوسری طرف پاکستان کی موجودہ اور سابق حکومت کا کردار عوام کے سامنے ہے، ان دونوں حکومتوں نے عوام کو کیا دیا ہے؟ قوم کے وسائل کو لوٹنے اور اس کو اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کرنے میں موجودہ اور سابق حکومت کا کوئی ثانی نہیں ہے، کرپشن کا ارتکاب کرنا ان کی سوچ اور عمل کا بنیادی محور ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک عام پاکستانی کی نظر میںحکمرانوں کی کوئی بہت زیادہ قدر باقی نہیں۔ موجودہ حکومت نے پاکستان کو قرضوں میں جکڑ دیا ہے، اور اگر یہی صورتحال رہی تو آئی ایم ایف کسی بھی وقت قرضے کی واپسی نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست ڈکلیئرکرسکتاہے، اگر ایسا ہوگیا تو یہ حکمران اپنے خاندان سمیت ملک سے فرار ہوجائیں گے، کیونکہ ان کی پاکستان کے عوام اور ان کی خوشحالی کے ضمن میں کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے، چنانچہ اس گمبھیر صورتحال کے پیش نظر اگر خدانخواستہ فوج ان کرپٹ عناصر کو اقتدار سے فارغ کردیتی ہے تو عوام ان کی حمایت میں کبھی بھی نہیں نکلیں گے، بلکہ ممکن ہے کہ ان کے گھروں کا گھیرائو کرکے انہیں پولیس کے حوالے کریں گے تاکہ عدالتوں میں ان کے خلاف قانون کی روشنی میں ان کرپٹ سیاست دانوں پر مقدمات چلائے جائیں اور ان کے کرتوتوں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیاجائے تاکہ آئندہ کرپشن کا خاتمہ ہوسکے، عمران خان نے صحیح کہا ہے کہ کرپشن پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔
ادھر ترکی کے صدر نے ناکام فوجی بغاوت کا الزام امریکہ پر عائد کیا ہے۔ انہوںنے اپنے ان خیالات کا اظہار فوجی بغاوت میںمارے جانے والوں شہریوں اور پولیس کے ارکان کی نماز جنازے کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کیا۔ طیب اردوان نے کہاہے کہ امریکہ ترکی کو توڑنا چاہتا ہے، اس ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ صاف نظر آرہاہے، انہوںنے عوام سے اپیل کی ہے کہ آئندہ ہفتہ انتہائی اہم ہے وہ اپنے شہروں اور دیہات میں ریلیاں نکال کر حکومت کے ساتھ
اپنے اتحاد کا اظہار کریں تاکہ امریکہ کو یہ احساس ہوسکے کہ ترکی کے عوام جاگ رہے ہیں اور وہ امریکہ کی مداخلت کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ طیب اردوان کے بیان کے بعد ترکی کے عوام میںاپنے ملک کو بچانے اور با ثمر جمہوریت کو جاری وساری رکھنے میںایک نیا عزم اور حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ اس وقت ترکی کے عوام اپنے ملک کے مختلف حصوں میں عوامی مظاہرے کررہے ہیں جن میں امریکہ کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے، اور امریکہ کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ اس کا یہ اقدام قابل قبول نہیںہے، اب ترکی اور امریکہ کے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آچکے ہیں جبکہ آئندہ ان دونوں ملکوں کے تعلقات کو بحال کرنے میں ایک طویل عرصہ لگ جائے گا۔ اس طرح کے اقدامات سے جمہوریت بہت پیچھے چلی جاتی ہے لیکن ترکی میں ایسا نہیں ہوا۔ اگرچہ ترکی میں سازشیں اب بھی جاری ہیں اور دوبارہ فوجی مداخلت کے آثار نظر آتے ہیں لیکن طیب اردوان کی کوشش ہے کہ ایسا بحران دوبارہ پیدا نہ ہو۔ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو ممکن ہے عوام کی کاوش کامیاب نہ ہو سکے اور فوج اقتدار سنبھال لے۔ ایسا کرنے سے ترکی کی معیشت کو بھی نقصان ہو گا اور وہ عالمی تنہائی میں چلا جائے گا۔ طیب اردوان نے ترقی کی جس شاہرا ہ پر ملک کو ڈالا ہے اس کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ترکی میں جمہوریت یونہی قائم رہے اور کوئی ڈکٹیٹر اسے راستے سے نہ ہٹا پائے۔ایسا ہوتا اگرچہ مشکل نظر آتاہے لیکن یہی ترکی کے مفاد میں ہے۔
دراصل امریکہ مسلمان ممالک کی ترقی کا نہ صرف دشمن ہے بلکہ اپنے خفیہ اقدامات کے ذریعہ مسلمان ممالک کو اپنا دست نگر رکھنا چاہتاہے، تاکہ یہ سر اٹھاکر نہ چل سکیں۔مشرق وسطیٰ کی موجودہ تباہ کن صورتحال کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے۔ترکی مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے اس لئے امریکہ کو یہ صورتحال ناگوار گزررہی ہے۔ وہ ترکی کو مصر کی سطح پر لانا چاہتا ہے، جہاں مصری فوج نے عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر قبضہ کرلیاہے، لیکن ترکی میں امریکہ کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا ہے، اس طرح ترکی مشرق وسطیٰ کا یہ واحد ترقی کرتاہوا مسلمان ملک ہے جو طاغوتی قوتوں کے نرغے سے نکل گیا ہے، اور عوام کی طاقت اور حوصلے کے ذریعہ آئندہ بھی ان کا مقابلہ کرتا رہے گا لیکن ترکی کے ناکام فوجی بغاوت سے ایک واضح سبق یہ ملتا ہے کہ مسلمان ملک میں غداروں کی کمی نہیں ہے، جو امریکہ اور یورپ کے ساتھ مل کر سازشیں کرکے اپنے ہی ملک کو تباہی کے راستے پر لے آتے ہیں۔ ترکی میں طیب اردوان کی حکومت کے خلاف سازش کرنے اور امریکہ کے احکامات پر عمل کرنے میں خود ترکی کے بااثر افراد شامل تھے، اگر یہ سازش کامیاب ہوجاتی تو ترکی کا وہی حشر ہوتا جو لیبیا، عراق اور شام کا ہوا ہے۔