معراج محمد خان اب ہم میں نہیں رہے ہیں، جس کی امانت تھے، اس ہی کے پاس چلے گئے ہیں، وہ اشتراکی نظریات کے حامل تھے اور مرتے دم تک اس ہی پر قائم رہے، وہ بے مثال مقرر اور سماج کے کچلے ہوئے طبقے کے حق میں مسلسل آواز بلند کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا، ان کا سب سے بڑا تاریخی اور یاد گار کارنامہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر پی پی پی کا قیام تھا۔ میں نے بھٹو صاحب کو اکثر معراج محمد خان کے طارق روڈ والے گھر پر کئی گھنٹوں بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ پی پی پی کے اغراض ومقاصد سے متعلق تبادلہ خیال کیا کرتے تھے، بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑا، مکان کا خیال اور فلسفہ معراج محمد خان کے مشورے ہی سے پیش کیا تھا، جو بعد میں پی پی پی کے منشور کا بنیادی نکتہ قرار پایا اور یہی پی پی پی کی غریبوں، محنت کشوں اور کچلے ہوئے طبقے کا نعرہ اور اس کی شناخت بن گیا تھا، بھٹو صاحب معراج محمد خان سے بہت محبت کرتے تھے اور سیاست اور معاشرت کے اہم معاملات پر ان سے مشورہ بھی کیا کرتے تھے۔ ابتدا میں اختلافات کے باوجود تعلقات قائم رہے۔
پی پی پی جب سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار میں آئی تو معراج محمد خان کو وفاقی کابینہ میں وزیر برائے محنت کا قلم دان سونپا گیا، لیکن یہ قلم دان اور ان کی وزارت زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکی، معراج محمد خان نے کراچی کی ایک مل پر پولیس کی مزدوروں پر بلاجوازفائرنگ
کے نتیجے میں چند مزدوروں کی ہلاکت کے سبب کابینہ سے استعفیٰ دے دیا، یہیں سے ان کے اور بھٹو صاحب کے درمیان اختلافات شروع ہوگئے اور راستے جدا ہوگئے، حالانکہ بھٹو صاحب معراج محمد خان کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے، لیکن معراج محمد خان ایک اصولی آدمی تھے، وہ ایک خاص مکتبہ فکر کے حامل تھے، اس لئے ان کی اور بھٹو صاحب کی نہیں بن سکی، بھٹو صاحب اپنی تمام تر دیانت، ذہانت اور فراست کے باوجود ان کی فکر میں وڈیرا شاہی کا عنصر غالب تھا، یہی وجہ تھی ان کی معراج محمد خان کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی، یقیناً اشتراکی سوچ رکھنے والوں کے لئے معراج محمد خان کی پی پی پی سے علیحدگی ایک بہت بڑا دھچکا تھی، کیونکہ پی پی پی میں اس وقت اکثریت ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کی تھی، جو سماج میں استحصالی نظام کے خلاف معاشی، مساوات کے لئے جدوجہد کررہے تھے۔ پی پی پی سے علیحدگی کے بعد معراج محمد خان کو اپنے نظریات کی پاداش میں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی، انہیں بھٹو صاحب کے دور کے علاوہ ضیاء الحق کے دور میں بھی زنداں کی تاریکیوں کا عذاب جھیلنا پڑا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ضیاء الحق نے انہیں ہر قسم کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا، حالانکہ ان کے بہت سے ساتھیوں نے چولا بدل کر ضیاء الحق کی حکومت کا ساتھ دینا شروع کردیا تھا۔ معراج محمد خان کا ایم آر ڈی کی تحریک میں ایک اہم اور فعال کردار رہا تھا، ترقی پسند اور اشتراکی نظریات کے حامل دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے جمہوریت کی بحالی کی تحریک شروع کی جو کہ ناکام رہی، مگر اس کا فلسفہ اور تحریک کے مقاصد ہنوز زندہ ہیں۔
معراج محمد خان نے بڑی بہادری، زندہ دلی اور اپنی روشن سوچ وفکر کے ساتھ طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کیا اور راستے کی تمام تکلیف دہ رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے سماج میں استحصال، ظلم وناانصافی کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھی، وہ جہاں بھی جاتے اپنی گفتگو میں سماج کی تشکیل کے لئے محنت کشوں کی بالادستی کا تصور پیش کرتے تھے، جس میں انصاف کا بول بالا ہو اور جیو اور جینے دو کے فلسفے کے تحت استحصال سے پاک معاشرے کا قیام پاکستان کے عوام کی حقیقی منزل ہو، جوکہ پاکستان کے قیام کا اصلی مقصد تھا، پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ان کا یہ خیال تھا کہ غیر جانبدار پالیسی اور بڑی طاقتوں سے سیاسی عدم وابستگی میں ہی پاکستان کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ وہ سیٹو سینٹو جیسے معاہدوں کے بھی خلاف تھے۔ ان معاہدوں کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ پہنچنے کی بجائے بہت نقصانات اٹھانے پڑے تھے، انہی معاہدوں کی وجہ سے پاکستان مغربی کیمپ کا حصہ بن گیا تھا۔
میں نے ان کے ٹی وی کے لئے کئی انٹرویوز کئے تھے، جس میں انہوں نے کھل کر اپنے سیاسی فلسفے سے ناظرین کو آگاہ کیا تھا، ان کا یہ خیال بالکل صحیح تھا کہ موجودہ پی پی پی اپنی فکری اور نظریاتی اساس کھو چکی ہے، یہ ایک ایسی پارٹی میں تبدیل ہوچکی ہے جس کی شناخت کرپشن اور لوٹ مار سے نمایاں طور پر وابستہ ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام میں اس کی وہ ساکھ نہیں رہی ہے جو بھٹو اور بے نظیر کے زمانے میں تھی۔ انہیں جہاں پی پی پی کے زوال کا بہت دکھ تھا، وہیں وہ پاکستان کے موجودہ سیاسی ومعاشی حالات پر بھی دل گرفتہ تھے۔ انہوں نے ببانگ دہل یہ اعتراف کیا کہ موجودہ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتا
ہے، یہ ایک ایسا ملک بن چکا ہے، جہاں استحصالی اور سامراج نواز طاقتوں نے قبضہ کرلیا ہے، جس سے نجات حاصل کرنے کے لئے سخت جدوجہد کی ضرورت ہے، جو فی الحال نظر نہیں آرہی ہے۔ معراج محمد خان نے یہ بھی کہا تھا کہ اقتدار پر فائز طبقے نے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پاکستانی معاشرے کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا کر اندر سے تقسیم در تقسیم کردیا ہے، جس کی وجہ سے قومی وحدت اور یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایک دن ان کے گھر پر ملاقات کے دوران ان سے پوچھا کہ آپ پاکستان کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ انہوںنے بر ملا جواب دیا کہ اگر حکومتی سطح پر کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت حد تک پاکستان کے مستقبل کو سنوارا جاسکتا ہے، لیکن سیاست دانوں کی موجودہ کھیپ کرپشن کو ختم نہیں کرنا چاہتی ہے، بلکہ اس کا تحفظ چاہتی ہے، جو سب کو نظر آرہا ہے۔ انہوں نے کہا موجودہ صورتحال میں اعلیٰ عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور آئین کی روشنی میں پاکستان کے موجودہ ناگفتہ بہ اور تکلیف دہ حالات میں تبدیلی لانے کی با ثمر کوششیں کرنی چاہئے، فوج کا بنیادی کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نا عافیت اندیش سیاست دانوں کی خراب کارکردگی فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کی ترغیب دیتی ہے، ماضی میں ایسا ہوا ہے۔ع
خدا مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا