کوئٹہ میں تخریب کاری، حقائق کیا ہیں؟

بلوچستان‘ خصوصیت کے ساتھ کوئٹہ میں گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان دشمن عناصر تخریب کاریوں میں مصروف ہیں‘ جن کی وجہ سے اب تک سینکڑوں بے گناہ معصوم افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ان تخریب کاریوں اور بم دھماکوں کے پیچھے ''را‘‘ کا ہاتھ صاف نظر آتا ہے، جس کے ایجنٹ نہ صرف بلوچستان کے اندر چھپ کر ایسی مذموم کارروائیاں کر رہے ہیں بلکہ ان کے ڈانڈے بھارت اور افغانستان سے بھی ملے ہوئے ہیں۔ پیر کے روز کوئٹہ میں جو تخریب کاری کا انتہائی قابل مذمت افسوسناک واقعہ رونما ہوا، شنید ہے کہ اس میں بھی بھارت اور افغانستان کے مشترکہ ایجنٹ شامل تھے جن کو کوئٹہ کے اندر سے غدار پاکستانیوں کا تعاون حاصل تھا۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے والے اس اذیت ناک سانحہ میں 52 وکلا اور دیگر شہری شہید ہوگئے ہیں‘ جن میں ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے بعض مریض بھی شامل ہیں۔ اس طرح بلوچستان کی اجتماعی دانش چند ثانیوں میں خاک و خون میں مل گئی۔ 
تخریب کاری کے اس قابل مذمت واقعہ کی کئی انتہا پسند تنظیموں نے ذمہ داری قبول کی‘ جن میں داعش بھی شامل ہے، لیکن میری اپنی معلومات کے مطابق حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس تخریب کاری میں براہ راست بھارت اور افغانستان کے تربیت یافتہ ایجنٹ ملوث تھے‘ جو چین اور پاکستان کے عظیم اقتصادی منصوبے سی پیک کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کوئٹہ میں تخریب کاری کرا کے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجیوں کے ظلم اور بربریت کو چھپانا چاہتا ہے، اور عالمی میڈیا اور بین الاقوامی کمیونٹی کی توجہ وہاں سے ہٹا کر کوئٹہ میں تخریب کاری کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں کچھ لوگ اور مغرب کی پروردہ کچھ این جی اوز بھارت کی بالواسطہ مدد کرکے پاکستان کو اندر سے عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں میں دن رات مصروف ہیں۔ ان عناصر کو بھارت‘ سی آئی اے اور ایم آئی چھ کی بھی مالی مدد مل رہی ہے، کیونکہ جب تک اندر سے تخریب کاروں کو مدد نہیں ملتی‘ اس وقت تک یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کے بعض تعلیمی اداروں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو درپردہ بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی حمایت کے لئے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسے کچھ عناصر کراچی میں بھی پائے جاتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ بعض کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی جو آزادانہ پاکستان کی تخلیق اور اس کے اغراض و مقاصد کے خلاف پروپیگنڈا کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنا کام سنجیدگی اور تن دہی سے انجام دیں تو بہت حد تک تخریب کاروں اور پاکستان دشمن عناصر کی ان مذموم کارروائیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ پیر کے روز کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے اندوہناک سانحہ میں انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی صاف نظر آرہی ہے۔
دوسری طرف بلوچستان کی سیاسی قیادت تخریب کاری کو روکنے میں زیادہ فعال اور متحرک نظر نہیں آ رہی۔ گزشتہ کئی ماہ سے کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر حصوں میں تخریب کاری ہو رہی ہے، بے گناہ لوگوں کے علاوہ ایف سی کے سپاہی اور افسران بھی مارے جا رہے ہیں، لیکن ہنوز ان تخریب کاروں اور ان کے سہولت کاروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ 18 جنوری 2016ء کو پاکستان دشمن تحریک طالبان نے بم دھماکہ کرکے ایف سی کے چھ جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔ اسی طرح جنوری ہی میں 13 پولیس والوں کو شہید کیا گیا تھا۔ اس دہشت گردی کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ ایف سی کے علاوہ پولیس نے بھی اپنی جوابی 
کارروائی کرتے ہوئے 2016ء میں 35 انتہا پسندوں اور تخریب کاروں کو واصل جہنم کیا تھا۔ تین سال قبل سردار بہادر خان خواتین یونیورسٹی میں دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، جس میں 11 طالبات شہید ہوئی تھیں۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ منصور خان بھی شہید ہو گئے تھے۔ بلوچستان میں تخریب کاری میں فرقہ واریت کا عنصر بڑا نمایاں ہے۔ ہزارہ کمیونٹی کے پُرامن افراد کو قتل کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ مزید برآں ایف سی اور پولیس کے ساتھ مقابلے میں مرنے والوں میں بلوچ علیحدگی پسند بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ آج بھی بلوچستان میں کسی نہ کسی جگہ چھپ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق علیحدگی پسند تخریب کار عناصر زیادہ تر بلوچستان کے جنوب میں سرگرم ہیں جبکہ بلوچستان کے شمال میں داعش اور تحریک طالبان پاکستان متحرک ہیں‘ جن کو بعض مقامی لوگوں کے علاوہ بھارت اور افغانستان کا مالی تعاون بھی حاصل ہے۔ بعض پڑوسی عرب ممالک امریکہ کے ایما پر ان تخریب کاروں کی مالی اور اسلحہ کی فراہمی سے مدد کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں تخریب کاری کی ایک بڑی وجہ یہاں کی پسماندگی بھی ہے۔ ابھی تک یہ صوبہ ترقی کی رفتار میں دیگر صوبوں سے خاصا پیچھے ہے۔ اس کو دیگر صوبوں کے برابر لانے میں خاصا وقت لگے گا۔ ان ساری باتوں کے باوجود یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بلوچستان میں ترقی ہوئی ہے اور نظر بھی آتی ہے۔ پاکستان بننے سے قبل یہ صوبہ انتہائی پسماندہ ہونے کے علاوہ تعلیم و تمدن سے مکمل طور پر محروم تھا، لیکن اب صورتحال خاصی بدل گئی ہے۔ صوبائی حکومتوں نے بلوچستان کی ترقی کے لئے کام کئے ہیں، لیکن بعض سیاسی عناصر بیوروکریسی کی ملی بھگت سے کرپشن کرنے میں پیش پیش ہیں۔ دراصل کرپشن اس صوبے میں ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے، جس سے نجات پانا ضروری ہے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی سہولت فراہم کرکے بہت حد تک تخریب کاری کو ختم کیا جا سکتاہے۔ پیر کے روز ہونے والے افسوسناک واقعہ کے بعد انٹیلی جنس اداروں کو فعال ہونا پڑے گا‘ ورنہ ایسے دردناک واقعات ہوتے رہیں گے۔ سی پیک کے منصوبے کو ناکام بنانے کے علاوہ امریکہ اور بھارت پاکستان کے جوہری اثاثوں کو بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبہ بندی میں افغانستان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، اس لئے سیاسی جماعتوں کے علاوہ پاکستان کے عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا جائے۔ ہمیں ساری ذمہ داری فوج پر نہیں ڈالنی چاہئے، اقتدار کے مزے لوٹنے والوں کو بھی قربانی دینا چاہئے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں