مودی صاحب! کشمیری عوام بھارت کے ساتھ نہیں !

بھارت کے ایک ممتاز صحافی سنتوش بھارتیہ نے نریندرمودی کے نام ایک کھلے خط میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے مشاہدات میں لکھا ہے کہ '' مودی جی! کشمیری عوام ہمارے ساتھ نہیں ہیں‘‘۔صحافی نے یہ خط مقبوضہ کشمیر کے اپنے چار روزہ دورے کے بعد لکھا ہے اور کہا ہے کہ تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود وادی میں حکومت کے خلاف تحریک میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے، اور نہ ہی اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ کشمیری عوام میں سخت غم وغصہ پا یاجارہا ہے۔بوڑھے سے لے کر ایک بچہ بھی حکومت سے سخت نالاں اور ناراض ہے۔ اب تک اس تحریک میں 150افراد شہید ہوچکے ہیں، جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔کشمیری رہنما یاسین ملک کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز سلوک کیا جارہاہے، وہ بیمار ہیں ،پولیس اور فوج کی نگرانی میں انہیں مقامی ہسپتال میں داخل کرادیا گیا ہے لیکن علاج نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کا ایک بازو غلط انجکشن سے خراب ہو رہا ہے۔ علی گیلانی کو ایک عرصہ دراز سے نظر بند کیا ہوا ہے، جبکہ ان کے بیٹے کو گرفتار کرلیا گیاہے، اس صورتحال نے وادی میںحالات کو اور زیادہ سنگین بنا دیا ہے۔ کشمیری نوجوان بھارت کی قابض فوج کوپتھر مار کر اپنے غصے کا اظہار کررہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال نے بھارت کی سیاسی جماعتوں ، خصوصیت کے ساتھ دانشوروں کو تقسیم کردیاہے، بھارت کی اکثرسیاسی جماعتیں مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کے وزیراعظم کی پالیسیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کررہی ہیں اور حکومت سے مطالبہ بھی 
کررہی ہیںکہ اس کا فی الفور سیاسی حل تلاش کرنا چاہئے، سیاسی حل میں پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا مطالبہ بھی شامل ہے، جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں حالات میں معمول پر لانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بھارت کے سیکولر دانشور جہاں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی پر ناراض ہیں، وہیں ان کو بھارت میں دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر بھی گہری تشویش ہے۔ ان کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ نریندرمودی نے بھارت کے سیکولر آئین کا چہرہ مسخ کردیاہے، اس کی جگہ رام راج کے قیام کی کوشش کی جارہی ہیں جو بھارت کے عوام کا کبھی بھی منشور نہیں رہا۔ مودی کی اس پالیسی کے پیش نظر بھارت میں بسنے والی تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہوگئی ہیں جبکہ مسلمانوں پر مختلف حیلے بہانوں سے عرصہ حیات تنگ کیا جارہاہے۔ گائے کا گوشت کھانے سے متعلق جھوٹی افواہیں پھیلا کر مسلمانوں کوخوف میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ دلت یعنی نچلی ذات کے ہندوئوں کے ساتھ تقریباً یہی سلوک روا رکھاجارہاہے، ان کی عورتوں کے ساتھ جنسی تشددروز مرہ کا معمول بنتا جارہاہے، اس صورتحال نے مودی کی حکومت عوام کی نظروں میں نہ صرف بد نام ہوئی ہے، بلکہ بھارت کی اکثریت اس کے خلاف مسلسل احتجاج کررہی ہے۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی قابض فوج اور پولیس کی جانب سے طاقت اور تشدد کے ذریعے تحریک کو روکنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے لیکن اب کشمیریوں کی تحریک کی آواز اور ان کا احتجاج بھارت کے مختلف صوبوں میںبھی پھیل رہاہے۔ مہاراشٹر کے ناراض اور غریب کسان بھی جہاں اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں، وہیں وہ مودی سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وتشدد کو فی الفور روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حا ل ہی میں مہاراشٹر کے تقریباً 100 سے زائد کسانوں نے زرعی قرضہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کشی کی ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی ماضی کی حکومت میں تقریباً تین ہزار کسانوں نے خود کشی کی تھی۔ اس وقت واجپائی بھارت کے وزیراعظم تھے اور انہوںنے بھارت کی اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ضمن میں شائننگ انڈیا کا نعرہ لگایا تھا۔
چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقبوضہ کشمیر سے متعلق ایک بھارتی کے نریندرمودی کے نام کھلے خط سے بھارت کی کشمیر 
پالیسی پر کوئی اثر پڑے گا؟ اس کا سادہ جواب تو یہ ہے کہ ضرور پڑنا چاہئے، لیکن مودی مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کررہاہے، جس کی وجہ سے مسئلہ حل نہیں ہورہاہے، حالانکہ پاکستان سے اس مقامی تحریک کا کوئی تعلق نہیں ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مسئلہ انتہائی سنگین اور گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ کشمیری عوام جام شہادت نوش کررہے ہیں، بھارت کی قابض فوج کا نہتے کشمیریوں پر ظلم بڑھتا جارہاہے،جو کسی بھی وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم کا باعث بھی بن سکتاہے، چنانچہ سنتوش بھارتیہ کے یہ الفاظ قابل غور ہیں جن میں لکھا گیا ہے ''میں یہ حقیقت واضح کردینا چاہتا ہوں کہ بھارتی نظام کے خلاف لوگوں کے اندر تکلیف دہ جارحیت موجود ہے، یہ جارحیت اور تلخی نامنظوری کے احساس کے ساتھ ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ یعنی وادی کے عوام ان سے بات کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں، جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں (نام نہاد کٹھ پتلی حکومت) ان کے دور جارحیت نے اب ایسی انتہا پسندی کا روپ دھار لیا ہے کہ عوام اب ہاتھوں میں پتھرلے کر کھڑے ہوئے ہیں، اور اتنے بڑے نظام کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ بھارت کا کوئی بھی منفی اقدام انہیں روک نہیں سکتا ، میرا مشاہدہ ہے کہ یہ صورتحال ہمارے بھارت کو تباہ کن قتل عام کی طرف لے جاسکتی ہے‘‘، کھلے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ جوکشمیری ہاتھ میں پتھر نہ اٹھائے وہ اپنے دل میں ضرور پتھر رکھتا ہے، اس تحریک نے بڑے پیمانے کی عوامی تحریک کا روپ دھارلیا ہے، جیسے 1942ء کی تحریک بی جے پی موومنٹ جس میں لیڈروں سے زیادہ عوام کا ہاتھ تھا، جن لوگوں نے 2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ ڈالے تھے آج ان میں کوئی اس حکومت کی حمایت یاپھر ہمدردی کا ایک لفظ کہنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اس کھلے خط کی اشاعت کے باوجود نریندرمودی بڑی ہٹ دھرمی سے اس کے مندرجات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں، بلکہ وہ اس کو حزب اختلاف کی جماعتوں کا پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں، بلکہ کہہ رہے کہ یہ سلسلہ جلد رک جائے گا، حالانکہ مقبوضہ کشمیر میں معروضی حالات بتا رہے ہیں کہ خودارادیت‘ آزادی اور حقوق کا مطالبہ ختم ہونے والا نہیں ہے، بھارتی وزیراعظم مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے لائن آف کنٹرول کے علاوہ ورکنگ بائونڈری پر بھی گولہ باری کرکے حالات کو مزید خراب کرنے پر تلا ہوا ہے، جو کہ دونوں ملکوں کے لئے انتہائی نامناسب ہے۔ چنانچہ اس صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کے نئے جنرل سیکرٹری کو قدم اٹھانا چاہئے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں نہتے عوام کا قتل عام رک سکے، تو دوسری طرف بھارت، پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے رہمنائوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے، تاکہ فریقین کسی نتیجہ پر پہنچ کر اس دیرینہ مسئلہ کا حل تلاش کرسکیں، اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل کئی مرتبہ پاکستان آچکے ہیں، وہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے واقف ہیں، اور وہ خود بھی اس مسئلہ کا پر امن حل چاہتے ہیں۔ خدا کرے یہ مسئلہ جلد از جلد حل ہو جائے اور کشمیری عوام کو آزادی اور امن نصیب ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں