آخرکار پاکستان کی وزارت خارجہ جاگ اٹھی اور اس ادارے کو احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں بھارت سے منسلک ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے بڑے دلائل اور براہین کے ساتھ کہا ہے کہ بظاہر بھارت دہشت گردی کی مذمت کرتا رہتا ہے، لیکن اندرون خانہ وہ اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکزبن چکا ہے، خاص طور پر گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان کے اندر قتل وغارت گری کے جو اندوہناک واقعات ہوئے ہیں، ان کے پیچھے بھارت کی ''فکر‘‘ اور ہاتھ کار فرما تھا۔ بلوچستان سے لے کر مقبوضہ کشمیر تک، بھارت اس خطے میں دہشت گردی پھیلا کر جہاں پاکستان کو معاشی طورپر کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے، وہاں اس کی سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہی ہے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر رہی ہے۔ انسداد دہشت گردی سے وابستہ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک بھارت بڑے ملک کی حیثیت سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کرے گا اور افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کو بند نہیں کرے گا، اس وقت تک اس خطے میں امن اور استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔
کل بھوشن یادیو کی پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانے اور دہشت گردوں کی ہمت افزائی کرنے سے متعلق حقائق اقوام متحدہ تک پہنچ چکے ہیں ( اگرچہ دیر سے پہنچے ہیں۔) ان حقائق میں بڑی تفصیل سے اس بھارتی ایجنٹ کی مذموم کارروائیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے تاکہ اقوام متحدہ کو یہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے بد نام کرنے والا ملک بھارت خود کس طرح پاکستان میں دہشت گردی پھیلا کر قیام امن اور عوام کی خوشحالی کے تمام امکانات کو معدوم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کو پاکستان کی جانب سے بھارت کی مذموم کارروائیوں کے بارے میں حقائق پیش کئے جانے کے بعد، اب یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آئین کی روشنی میں بھارت پر دبائو ڈالے کہ وہ دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے سے باز رہے، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے اندر افراتفری پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ در اصل بھارت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان میں اکثر گڑ بڑ کراتا رہتا ہے۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر اس کی بلا اشتعال فوجی کارروائیاں ظاہر کر رہی ہیں کہ بھارت جان بوجھ کر پاکستان کے خلاف جنگ جیسے حالات پیدا کر رہا ہے۔ ہر چند کہ پاکستان بھارت کی جانب سے ان تمام اشتعال انگیز کارروائیوں پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے، لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق آخر کب تک؟ اس لئے جنوبی ایشیاء کے علاوہ پوری دنیا میں، جہاں جہاں فوجی تصادم کے امکانات نظر آ رہے ہیں، وہاں امن کے قیام کی فوری ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں پاکستان اقوام متحدہ کے ساتھ پورا تعاون کرے گا، بلکہ کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک بڑی ذمہ داری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے نہتے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و تشدد کو روکنا ہے، مقبوضہ کشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق وہاں استصواب رائے کرانا ہے تاکہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوںکی روشنی میں ان کا بنیادی حق مل سکے۔ بھارت گزشتہ کئی سالوں سے مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ فوج کے ذریعے نہتے کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے۔ وہ طاقت، تشدد اور بربریت کے ذریعے ان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہوسکا اور نہ ہی کامیاب ہوگا کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام 1947ء کے بعد ہی سے اپنے حقوق اور آزادی کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ ان کی بے مثال جد و جہد، قربانی اور ایثارکی وجہ سے آج کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر زندہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اس خطے میں امن بھی قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔
پاکستان تنازعہ کشمیر کا ایک فریق ہے، وہ اپنی اس آئینی، اخلاقی اور سیاسی حیثیت سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ اقوام متحدہ کو پاکستان کی اس حیثیت کا علم ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان جنرل اسمبلی کے اجلاس کے علاوہ دیگر فورمز پر بھی کشمیر کا مسئلہ اٹھاتا رہتا ہے، تاکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر دنیا کو کشمیری عوام کے مطالبات کا احساس دلاتا رہے۔ ہر چند کہ بان کی مون اب اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نہیں رہے، لیکن انہوں نے جاتے جاتے یہ تسلیم کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کے درمیان نہ صرف کشیدگی کا باعث بنا ہوا ہے بلکہ کسی بھی وقت یہاں اس مسئلہ پر فوجی تصادم ہو سکتا ہے۔ بان کی مون کے اس بیان کی روشنی میں اب نئے سیکرٹری جنرل کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق حالات کا ازسرنو جائزہ لیتے ہوئے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ جنوبی ایشیاء میں کشیدگی ختم ہو سکے اور امن کے امکانات روشن ہوں۔ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر کے دوران اب تک 150کشمیری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، سیکڑوں زخمی ہوئے جو ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جہاں دوائیاں تقریباً ناپید ہیں۔ بیشتر تعلیمی بند ہیں، معاشی سرگرمیاں بھی تقریباً معدوم ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں کشمیری عوام سخت اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ادھر بھارت اپنی فوج کے ذریعے نہتے کشمیریوں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آ رہا ہے۔
ان ناقابل تردید حالات کے پیش نظر اقوام متحدہ کے نئے سیکرٹری جنرل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو دیگر امور پر ترجیح دے کر اس کا کوئی پائیدار حل نکالیں تاکہ نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کی جانب سے ظلم و تشدد بند ہو سکے اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنی خود ارادیت کا حق حاصل کرسکیں۔ اس وقت عالمی سطح پر انسانی حقوق کا سب سے بڑا مسئلہ مقبوضہ کشمیر ہے جس کو حل کرنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے۔ اس کے حل میں ہی اس خطے کے امن اور خوشحالی کا راز مضمر ہے۔