اہل کشمیر سے اظہارِ یکجہتی کا دن

جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے اس وقت سے مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے غیر آئینی وغیر قانونی تسلط کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، کشمیریوںکی یہ جدوجہد آئینی بھی ہے اور عالمی سطح پر محکوم عوام کے حق خودارادیت کے اصولوں کے عین مطابق بھی۔ اب تک مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں جہاں آج یہ مسئلہ زندہ ہے، وہیں کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو یہ غلط مشورہ دیا گیا ہے کہ طاقت کے بہیمانہ استعمال اور سات لاکھ بھارتی قابض فوج کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر کے بہادر اور غیور عوام اپنی جدوجہد سے کنارا کش ہوجائیں گے،یہ غلط سوچ ہے۔ طاقت وتشدد کے استعمال سے کبھی بھی کسی قوم کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے، جدیدعہد میں اس کی مثال ویت نام سے دی جاسکتی ہے، جہاں امریکہ نے ویت نامیوں کو ان کے نظریہ اور جدوجہد کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ 30لاکھ ویت نامیوں نے اپنے وطن کی ناموس اور نظریات کے تحفظ اور بقاء کے لئے اتنی عظیم قربانیاں دی ہیں جس کی مثال اس جدید عہد میں ملنا مشکل ہے۔ خود امریکہ کے 58ہزار نوجوان امریکی فوجی اس ویت نام جنگ میںمارے گئے ، لیکن نتیجہ امریکہ کے حق میں نہیں نکلا بلکہ بڑے آبرو ہوکر وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے جہاں آزادی اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والے متوالے ہر روز قربانیاںدے رہے ہیں اور بھارت کے نسلی امتیاز کے حامل وزیراعظم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل کرنے میں مزید تاخیر ناقابل قبول ہے، پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کے حق خود ارادیت کی بھر پور حمایت کررہاہے، بھارت کشمیر سے متعلق پاکستان کی پالیسیوں کے بھی سخت خلاف ہے ، تو دوسری طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں ڈیم بنارہاہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہورہی ہے اور ہمار ا زرعی شعبہ متاثر ہورہاہے جس سے زرعی پیداوار میں بھی نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے، دراصل بھارتی وزیراعظم اپنی ''عوامی طاقت‘‘ کے غرور اورگھمنڈ میں نہ تو مقبوضہ کشمیر کے نمائندوں سے بات چیت کرکے اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتاہے، اور نہ ہی وہ پاکستان سے اس اہم عالمی مسئلہ پر گفت وشنید کے لئے تیار نظر آ رہا ہے۔ اس جنونی اور مسلم دشمن شخص نے کشمیر کے مسئلہ کے لئے ثالثی کی تجویز کو بھی مسترد کردیاہے، حالانکہ ثالثی کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کیا جاسکتاہے اور مزید خون خرابے سے بھی بچاجا سکتا ہے۔ 
کشمیرکے مسئلہ کے حل کے لئے ماضی بعید میں امریکہ نے اس مسئلے کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور کسی حد تک معاملات سیاسی حل کی طرف بڑھ رہے تھے، لیکن بعد میں بھارت کے دبائو کی وجہ سے امریکہ ثالثی کے کردار سے دستبردار ہوگیا، حلانکہ امریکی قیادت کشمیر کے عوام کی جدوجہد
سے کلی طورپر واقف ہے، اور اس کو اس کا بھی ادراک ہے کہ اس مسئلہ پر آئندہ نیوکلیئر جنگ بھی ہوسکتی ہے، (کارگل کے محاذ پر نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال ہونے والا تھا) لیکن ان تمام تر حقائق کے باوجود امریکہ اس مسئلہ کا سیاسی حل نکالنے سے گریزاں نظر آرہاہے، وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معاشی مفادات سے مربوط کرچکا ہے، اور اس اہم مسئلہ پر بات کرکے بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔امریکہ کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق پالیسی کا ایک اور تضاد یہ بھی ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان پر زور دے رہا ہے کہ یہ دونوں ملک دوطرفہ بنیادوں پر بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں، (با الفاظ دیگر تاشقند معاہدے کی روشنی میںجو جناب بھٹو مرحوم اورمسز اندرا گاندھی کے درمیان ہوا تھا) بھارت اس کے لئے بھی تیار نہیں ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نریندرمودی کو فون کال کی وجہ سے اس کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور وہ طاقت اور تشدد کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد ختم کرنا چاہتا ہے، لیکن اسے اس میں کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکے گی، حقیقت تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے اپنی موجودہ تحریک کے ذریعہ یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے بلکہ بہیمانہ طاقت کے استعمال کی وجہ سے بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی اخلاقی، آئینی اور قانونی ساکھ ختم کر چکا ہے، بھارت اس ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے وادی میں مخلوط حکومت کی سربراہ محبوبہ مفتی بھی اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام نظر آہی ہیں، ہر چند کہ ان کی ہمدردیاں کشمیری عوام کے ساتھ ہیں، لیکن سیاسی مجبوریوں اور اقتدار کی چمک نے ان کے ضمیر کو بھی سلا دیا ہے۔
5فروری کو کشمیری عوام پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر کشمیر ڈے منائیں گے اور ایک بار پھر یہ عہد کریں گے کہ جدوجہد آزادی کا بے مثال سفر جاری رہے گااور اسے رکنا نہیں چاہئے، اس موقع پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی آگے آکر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور بھارتی قابض فوج کی بربریت کی مذمت کرنی چاہئے اور انٹرنیشنل کمیونٹی پر زور دینا چاہئے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر خصوصی توجہ دے کر اس کا سیاسی وآئینی حل تلاش کرے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ساتھ لاکھ فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے پر زور دے۔ دوسری طرف بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں قابض فوج نے خوف اور تشدد کو پھیلا کر اس کے سیاسی حل کے تمام دروازوں کو بند کر دیا ہے، جو خود اپنی جگہ ایک قابل مذمت صورتحال ہے۔ وزیراعظم سے یہ امید رکھنا کہ وہ نریندرمودی سے آنکھ سے آنکھ ملا کر اس مسئلہ کے حل پر زور دیں گے، صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین فضل الرحمن بھی میاں نواز شریف کے نقش قدم پر چل کراس مسئلہ پر زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنما علی گیلانی کو کہنا پڑا کہ پاکستان کی حکومت کو فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئر مین نہیں بنانا چاہیے تھا، نیز اس مسئلہ پر پاکستان کی سفارت کاری بھی کمزور نظر آرہی ہے، وزیرخارجہ موجود نہیں ہے اگرہوتا تو وہ فعال ہوکر اس انسانی مسئلہ کو عالمی سطح پر اجاگر کرتا، لیکن چونکہ پاکستان میں ''جمہوریت‘‘ قائم ہے اور ایک فرد واحد کی مرضی سے حالات کو سنوارا یا بگاڑا جارہا ہے، تاہم مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی تاریخی اور بے مثال جدوجہد کو جاری رکھیں گے اوریوم کشمیر کے موقع پر کشمیریوںکے ساتھ تجدید عہد وفا کریں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں