دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیمت

جس دوران حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ، جس میں کامیابیوں کی جھلک نظر آنا شرو ع ہوچکی، لڑرہی ہے، بہت سے پاکستانی اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ریاست نے سیکڑوں افراد کو پھانسی دی، بہت سوں کو ماورائے عدالت، مبینہ طور پر پولیس مقابلوں میں ہلاک کیا، علیحدگی کے لیے جد وجہد کرنے والے کئی افراد غائب کردیے گئے اور ان کی لاشیں بعد میں ملیں۔ کہا جا رہا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جنگ میں اضافے کے ساتھ اس کی شدت گلیوں میں بھی محسوس کی جانے لگی ہے۔ 
دسمبر، جب آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے میں ایک سو پچاس افراد، زیادہ تربچے، ہلاک ہوئے تو فوج اور سویلین حکومت نے نواز شریف کی قیادت میں دہشت گردوں سے انتقام لینے کا عزم کیا۔اس سے پہلے فوج پر الزام تھا کہ یہ 1980ء کی دہائی سے دہشت گردی کی سرپرستی کر رہی ہے، لیکن تبدیل شدہ موڈ کا عوام کی اکثریت نے خیر مقدم کیا کیونکہ لوگ دہشت گردی اور تشددسے تنگ آئے ہوئے تھے۔ پاکستان نے پھانسی کی سزا پر سات سال سے عائد پابندی اٹھالی اور اب تک دوسو کے قریب افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ پھانسی پانے والوں میں کچھ نوجوان لڑکے بھی شامل ہیں۔ اس وقت آٹھ ہزارکے قریب افراد جیلوں میں سزائے موت کے منتظر ہیں ؛ تاہم ان سب کے سب کو دہشت گردی کے مقدمات میں سزا نہیں ہوئی، لیکن حکومت کا عزم ہے کہ ان کو بی تختہ ٔ دار پر چڑھادیا جائے گا۔اس طرح پاکستان شمالی کوریا اور سعودی عرب جیسی ریاستوں کی صف میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ 
اس دوران پارلیمنٹ نے آئینی ترمیم کے ذریعے مبینہ دہشت گردوں کو سزا دینے کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کے قیام کی منظور دے دی ہے۔ان کے قیام کو طریق کار کی وجہ سے انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ان عدالتوں کا قیام فوج کا دیرینہ مطالبہ تھا کیونکہ دہشت گردوں اورانتہا پسندوں کو سزا دینے کے عمل میں سویلین عدالتیں غیر موثر دکھائی دیتی تھیں۔اس وقت سویلین عدالتوں میں 17,000 ایسے کیسز کی سماعت کی باری نہیں آ رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی نظام ِانصاف میں بہت سی خامیاں دکھائی دیتی ہیں۔ 4 اگست کو شفقت حسین کو ایک سول عدالت کی طرف سے سزائے موت سنانے کی وجہ سے پھانسی دے دی گئی حالانکہ وہ ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اس کی سزائے موت پر عمل درآمد چار مرتبہ ملتوی کیا گیا؛ تاہم یورپی یونین ،امریکہ اور عالمی برداری کے احتجاج کے باوجود اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ 
اب ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو ان اقدامات کی قیمت عالمی سطح پر ادا کرنی پڑے۔ یورپی یونین کی کونسل نے اسلام آباد کی طرف سے یورپی یونین کی درخواست کو مستر د کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی تجارت کی سہولت واپس لی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ریاست عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی پاسداری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کو طالبان، فرقہ ورانہ تنظیموں اور علیحدگی پسندوں کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی کی بدترین کارروائیوں کاسامنا ہے۔ ایک سال پہلے فوج نے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے ان دہشت گردوں سے دودوہاتھ کرنے اور اُنہیں کیفر کردار تک پہنچانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس نے قبائلی علاقوں اور افغانستان کی سرحد کے قریب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ اب تک ہزاروں پاکستانی طالبان ہلاک یا گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ کچھ جان بچا کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اس آپریشن کے نتیجے میں لوگوں نے سکون کا سانس لیا۔ 
فاٹا کی طرح کراچی بھی دہشت گردی اورسیکولرشدت پسندی کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہ شہر پاکستان کی معاشی شہ رگ اور سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ دوکروڑ کی آبادی رکھنے والا یہ شہر کئی برسوںسے تشدد، جرائم، بھتہ خوری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ کا شکارہے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی سے فعال مافیا نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ تاہم تبدیل شدہ موڈ کے ساتھ فوج نے یہاں بھی رینجرز کی مدد سے آپریشن کلین اپ شروع کیا۔ اب تک اس شہر میں کافی سکون ہوچکا ہے۔ شہریوں نے مجموعی طور پر اس آپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ 
تاہم اس شہر میں سیکڑوں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی رپورٹس نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے کان کھڑے کردیے ہیں۔ کچھ پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرزکو بتایا کہ ایسی ہلاکتیں ''عدالتوں کا بوجھ ‘‘ کم کرنے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ سندھ کے ڈی آئی جی پولیس غلام قادری تھیبو (وہ جولائی تک اس منصب پر تھے)کا کہنا ہے کہ اس سال کراچی میں 234 مجرم پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے۔دیگر ذرائع ان ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار تک بتاتے ہیں۔ پولیس کا موقف ہے کہ یہ ہلاکتیں اس لیے ہوتی ہیں کہ جب وہ خطرناک مجرموں کو دہشت گردوں کو گرفتار کرتے ہیں تو عدالتیں انہیں رہا کردیتی ہیں؛ چنانچہ انہیں موقع پر ہی انجام تک پہنچانا بہتر ہے۔ عدالت کی طرف سے انہیں رہاکرنے کی بڑی وجہ مجرموں کے ساتھیوں کی طرف جج حضرات کو دی جانے والی دھمکیاں ہیں۔ گزشتہ ماہ، جولائی میں ایک سنی انتہا پسند، ملک اسحاق کو تیرہ ساتھیوں کے ہمراہ پنجاب کے شہر مظفرگڑھ کے نزدیک پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا۔ لشکر ِجھنگوی کے اس رہنما پر سیکڑوں مخالفین کو قتل کرنے کا الزام تھا، لیکن عدالتیں اُسے سزا دینے میں ناکام رہیں۔ 
یہ جنگ ابھی جاری ہے۔ انتہا پسندوں نے چند دن پہلے،16 اگست کو پھر وار کیا اور پنجاب کے وزیر ِداخلہ شجاع خانزادہ کو اٹک کے نزدیک، اُن کے ڈیرے پر، خود کش حملے میں ہلاک کردیا۔اس حملے میں بیس افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کا شک لشکر ِ جھنگوی پر ہے ۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ لشکرنے حکومت کو براہ ِراست ہدف بنایا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ حملہ دہشت گردوں کی طرف سے حکومت کے خلاف اعلان جنگ ہوسکتا ہے۔ اس دوران بلوچستان میں علیحدگی پسندوںکے خلاف کارروائی جاری ہے۔ اس میں بھی لاتعداد افراد ہلاک اور لاپتہ ہوچکے ہیں۔11 اگست کو کوئٹہ کے نزدیک پانچ مردوں اور دوعورتوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ملی تھیں۔ ان کی ہلاکت کی ذمہ داری کسی نے بھی قبول نہ کی اور نہ ہی کسی نے زبان کھولی۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان میں میڈیا علیحدگی پسندوں سے بھی خائف ہے اور سکیورٹی فورسز سے بھی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اس نہج پر پہنچ جانے سے بہت سے ذی شعورافراد ڈرتے ہیں کہ کیا ملک کی پالیسیاں آئندہ بندوق کی نوک سے تو مسلط نہیں کی جائیں گی اور کیا کہیں سیاسی مکالمے کی گنجائش بچے گی یا نہیں؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں