کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال

دوسری جنگ عظیم کے ہیرو‘ صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور نے اقتدار چھوڑتے ہوئے طنزاً امریکہ کو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کہا تھا۔ اسلحہ برآمد کرنے والی یہ کمپنیاں دنیا میں جنگ و جدل کو ہوا دیتی رہتی ہیں۔دوسری عالمی لڑائی کے بعد کم از کم دو بار وار لابی نے خیالی خطرے کی گھنٹی بجا کر اس ملک کو میدان جنگ کے راستے پر ڈالا ہے جس کا اعتراف خود حکمرانوں نے کیا۔خلیج ٹونکن میں ایک امریکی گن شپ پر شمالی ویت نام کا مبینہ حملہ‘ کانگرس کی اس قرار داد کی بنیاد بنا‘ جس نے ویت نام کی لڑائی کو قانونی تحفظ دیا؛ حا لانکہ بعد میں ثابت ہوا کہ ایسا حملہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔پھر یہ غلغلہ بلند ہوا کہ صدام حسین نے ہلاکت خیز ہتھیار جمع کر رکھے ہیں جنہیں وہ امریکہ کے خلاف استعمال کرے گا۔جب عراق کی اینٹ سے اینٹ بج گئی تو پتہ چلا کہ وہاں ایسا کوئی ذخیرہ نہیں تھا۔ اب صدر اوباما کا کہنا ہے کہ دمشق کے مضافات میں غوطہ کے مقام پر نہتے شہریوں کی آبادی پر جو حملہ ہوا اس میں ممنوعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے اور پندرہ سو افراد مار ڈالے گئے۔ اس سے شام کی سرحد پر ہمارے دوستوں اور ساجھے داروں کوجن میں اسرائیل‘ ترکی ‘ اردن‘ لبنان اور عراق شامل ہیں‘ خطرہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت‘ کہ جب مشرق وسطیٰ جنگ کی آگ میں جل رہا ہے لوگ فرقہ وارانہ‘ نسلی اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں ‘حکومتیں اس خونریزی میں ملوث ہیں اور ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ شام میں ایسے ہتھیار استعمال کئے گئے تو کس نے کئے؟ تقریباً ایک صدی پرانے عالمی قانون پر عمل درآمد کیوں؟ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر متحارب طاقتیں جنیوا میں جمع ہوئیں اور انہوں نے کیمیائی ہتھیا روں پر پابندی لگا دی۔ اگرچہ ان ہتھیاروں سے ہونے والی اموات کی شرح مجموعی جانی نقصان کے ایک فیصد کے برابربھی نہیں تھی مگر نتائج نہایت ہو لناک تھے۔ امریکی عوام کہتے ہیں ہم عالمی پولیس مین کیوں بنیں ؟ اسی لئے فلوریڈا کے کانگرس مین ایلن گریسن نے کہا کہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس جنگ چاہتا ہے‘ امریکی نہیں۔ ممنوعہ ہتھیاروں میں عام طور پر دو گیسیں بھری جاتی ہیں جو مسٹرڈ mustardگیس اور سارین sarinگیس کہلاتی ہیں۔آج اقوام متحدہ کے تقریباً سبھی ارکان ان کے استعمال کی ممانعت کرتے ہیں گویا وہ اس بارے میں جنیوا کنونشن پر دستخط کر چکے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے مابین تین لڑائیاں ہوئیں مگر کسی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی شکایت نہیں ہوئی۔امریکہ‘ روس اور یورپی ممالک اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے تلف کر چکے ہیں مگر صنعتی مقاصد کے لئے یہ گیسیں اب بھی پیدا کرتے ہیں۔ موت تو دردناک ہوتی ہے خواہ کسی بھی ہتھیار سے ہو۔کیا ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں جاپانیوں کی موت ہولناک نہیں تھی۔کیا نیپام اور ایٹم بم کم ہولناک ہیں اور کیا خیبر پختونخوا میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں انسانوں کے انجام کا منظر کم کربناک ہوتا ہے ؟ پھر بے گناہ شامیوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے مزید بے گناہ لوگوں کی جان لینا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ اسلحے پر قابو پانے کے ایک ماہر جیفری لیوس کا کہنا ہے کہ کیمیائی ہتھیار صحیح معنوں میں ہولناک ہیں۔وہ کسی کو جان سے مارنے کا بالخصوص ظالمانہ طریقہ ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں کی تاریخ کے مصنف جانا تھن ٹکر لکھتے ہیں کہ زہر سے انسان کی بیزاری ایسے اسلحے کے استعمال پر اس کی برہمی کا اصل سبب معلوم ہوتا ہے۔ ان ہتھیاروں کی زد میں آنے والا‘ ہفتوں کرب میں مبتلا رہتا ہے اور تڑپ تڑپ کر جان دیتا ہے۔ پہلی عا لمی لڑائی کے بعد رائے عامہ کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف بیدار ہوئی ‘ ان کا استعمال ممنوع کیا گیا اور 1997ء میں امریکہ سمیت بیشتر ملکوں نے جنیوا معاہدوں پر صاد کر دیا۔ شمالی کوریا اور شام ان میں شامل نہیں تھے اور امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ شام نے اپنے شہریوں کے خلاف ان ہتھیاروں کو استعمال کیا جب کہ ایک خیال یہ ہے کہ زہرناک اسلحے کا استعمال شامی اپوزیشن نے کیا۔ صدام اور اسد تو دہشت گردی سے لڑنے کا عزم ظاہر کرتے تھے مگر امریکہ نے ان کے مخالفوں کا ساتھ دیا۔ اگر شامی اپوزیشن میں القاعدہ نکل آئی تو کیا ہو گا؟ مصر میں پہلی بار جمہوری الیکشن ہوا تو نتیجہ واشنگٹن کو پسند نہیں تھا ۔اس نے صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کو فوجی بغاوت نہیں کہا کیونکہ ایسی صورت میں مصری فوج کے لئے پندر ہ ارب ڈالر کی امریکی امداد کا سلسلہ رک جاتا۔ جنیوا کنونشن کی توثیق کے بعد کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی ایک مثا ل دی جاتی ہے۔1988ء میں عراقی صدر صدام حسین کی فوجوں نے سرحدی شورشوں سے تنگ آکر حلبجہ پرزہریلی گیس کے بم پھینکے اور تین سے پانچ ہزار تک عراقی کرد مار ڈالے۔اس پر دنیا میں بہت شور مچا مگر عراق کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کی گئی۔ سن2012ء میں شام میں موروثی صدر بشار الاسد کے خلاف شورشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور سرکاری فوجوں نے باغیوں کی سر کوبی کے لئے حملے کئے جو بالآخر اکیس اگست کو اس کیمیکل حملہ میں بدل گئے‘ جس پر امریکہ نے شام کے خلاف ایک مختصر اور محدود فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا جو بیشتر امریکی دانشوروں اور ریٹائرد فوجی افسروں کے بقول ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک ایسی لڑائی جس میں امریکی بوٹ شام کی سر زمین پر نہیں پڑیں گے ‘امریکہ کے مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ ترکی کا کہنا ہے کہ مارو بھاگو اسے پسند نہیں اور سعودی عرب دنیا سے‘ بشار الاسد کو ہٹانے کی اپیل کر رہا ہے۔ تاہم عرب لیگ اور سعودی عرب‘ دمشق کے خلاف جارحیت کی حمایت نہ کر سکے۔ 59 فیصد امریکی عوام بھی اس کے مخالف ہیں۔ اگرچہ صدر اوباما کا دعویٰ ہے کہ انہیں اقوام متحدہ کی رائے کا انتظار نہیں اور بطور کمانڈر انچیف وہ یک طرفہ طور پر بھی شام کو سبق سکھا سکتے ہیں مگر فوجی کارروائی کے پیچھے ساری قوم کو صف آرا کرنا بہتر ہو گا۔صدر نے شام کے خلاف تادیبی کارروائی کو ملتوی کرتے ہوئے کہا۔’’ ایک آمر ہماری نظروں کے سامنے ہزاروں بچوں کو زہر کے ہتھیاروں سے موت کے گھاٹ اتارے اور کوئی قیمت ادا نہ کرے توہم دنیا کو کیا پیغام دیں گے؟‘‘ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ کابل اور بغداد کے برعکس دمشق میں حکومت کی تبدیلی کے حق میں نہیں؛ البتہ وہ ایران ‘ شمالی کوریا اور جنوبی امریکہ کے ملکوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر انہوں نے کیمیائی ہتھیا ر استعمال کئے تو ان کا انجام بھی یہی ہو گا۔ جیسا کہ ری پبلیکن سینیٹر جان مکین نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ چپ رہتا تو دنیا میں اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی۔گویا یہ لڑائی ملک کی ساکھ بچانے کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ کچھ ماہرین صدر کی مجبوری کو سمجھتے ہیں۔ ڈیرل کمبل جو واشنگٹن میں آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں کہتے ہیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استیصال کی ایک صدی پرانی تحریک کو اس وقت جھٹکا لگا جب صدام حسین نے بلا امتیاز کُرد آبادی کو گیس کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی اور اس پر امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری کا رد عمل کمزور رہا۔اس سے صدام کو اپنے لوگوں کے خلاف ممنوعہ اسلحے کا استعمال جاری رکھنے اور خطے میں دوسرے ملکوں کو اپنے ذخائر بنانے کی شہ ملی۔محکمہ خارجہ کے سابق عہدیدار گریگ تھیل من‘ جو عراق پر بلا جواز امریکی فوج کشی کے خلاف بیان دے کر مستعفی ہو گئے تھے‘ شام کے خلاف ثبوت کو کافی سمجھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں