پانی کی جنگ

خربوزے کا رنگ اور حجم دلکش تھا مگر جب اسے چیرا تو وہ پھیکا اور سخت نکلا ۔یہ پھل کوسٹا ریکا سے آیا اور محلے کے گروسری سٹور نے اسے فروخت کیا تھا ۔ بازار میں محمد ایوب خان یا کیلی فورنیا کے کسی اور کاشتکار کے خربوزے دستیاب نہیں ۔امریکہ میں جو پھل اور سبزیاں فروخت ہوتی ہیں ان میں سے تقریباً آدھی کیلے فورنیا سے آتی تھیں ۔ اب نہیں کیونکہ مغربی ریاست کے زمیندار تین سال سے خشک سالی کا سامنا کر ر ہے ہیں اور اس سال پانی کمیاب ہے۔ ایوب فارم کے منتظمین کا اندازہ ہے کہ جولائی میں وہ خربوزے کے ساڑھے چھ لاکھ ڈبے منڈی میں نہیں بھجوا سکیں گے جن کی مالیت تین ملین ڈالر ہو سکتی تھی ۔گویا وہ چند سو کھیت مزدور بھرتی نہیں کر سکیں گے جو بالعموم میکسیکو سے آتے تھے اور میں اور میرے جیسے لاکھوں صارفین سٹور سے پھیکا خربوزہ نہیں خریدیں گے اور اس طرح قومی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ پاکستانی اور سکھ امریکی ان زمینداروں کا عشر عشیر بھی نہیں جو اس ریاست کے ساڑھے سات لاکھ ایکڑ رقبے پر کاشت کرتے ہیں اور اندیشہ ہے کہ ان میں سے اکثر اس سال کے خاتمے تک دیوالیہ ہو جائیں گے ۔ صدر اوباما متاثرہ ریاستوں میں گئے اور موسم میں تبدیلی Climate Change کے سائنسی مطالعے کے لئے ایک بلین ڈالر تجویز کئے ۔
سان فرانسسکو سے سیکرامنٹو جائیں تو سڑک کی بائیں جانب ایوب فارم نمبر پانچ کا سائن بورڈ نظر آتا ہے ۔محمد ایوب خان‘ مانسہرہ کے رہنے والے تھے۔ قیام پاکستان تک ایک تجارتی جہاز میں کوئلہ جھونکنے کا کام کرتے تھے ۔ دخانی جہاز سان فرانسسکو کی بندرگاہ میں لنگر انداز ہوا تو نو عمر ایوب اور ان کے بعض ساتھی جہاز سے کود کر غائب ہو گئے ۔یہ نئی دنیا میں سنہری مواقع کا دور تھا ۔ایوب نے چیری اور بادام توڑنے کا دھندا اختیار کیا اور رفتہ رفتہ خود ا ن کھیتوں کا مالک بن گیا ۔ یہ ولولہ خیز کہانی اس جہانِ رنگ و بو سے رخصت ہونے سے قبل ادھیڑ عمر ایوب نے خود مجھے سنائی ۔ان کے چھ بیٹے ہیں جو امریکہ میں پلے بڑھے ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ ہیں مگر وہ سب اپنی دلہنیں ماں باپ کی ہدایت کے مطابق پاکستان سے لائے ہیں ۔ان میں سب سے بڑے ایک اٹا رنی (وکیل) ہیں اور قانون کے پیشے سے ریٹائر ہونے کے بعد خاندانی فارم کی دیکھ بھال کرتے ہیں ۔
احمد ندیم قاسمی‘ روزنامہ امروز کے ایڈیٹر تھے اور ادارتی عملے کے ارکان اکثر ان کو چھیڑا کرتے تھے ۔وہ ضلع سرگودھا کی تحصیل خوشاب میں پیدا ہو ئے تھے ۔ اس علاقے میں پینے کا صاف پانی کمیاب تھا اور لوگ نہروں یا جوہڑوں کا ناپاک پانی پی کر ایک بیماری میں مبتلا ہوتے تھے جسے واہوا کہا جاتا تھا ۔مریض کے جسم کی پوروں سے زندہ کیڑے سر اٹھاتے تھے جنہیں نکلوانے کے لئے حجام کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں ۔اس سیاق و سباق میں تحصیل اور بیماری کے نام‘ وجۂ تضحیک تھے۔ ایڈیٹر کی ہدایت پر نامہ نگاروں نے متعدد رپورٹیں بھیجیں مگر مسئلہ جوں کا توں رہا ۔خوشاب تو کجا لاہور ضلع کے دیہاتی‘ نہر کا غیر مصفی ٰ پانی پیتے تھے ۔وہ یہ پانی مٹی کے گھڑوں میں بھرتے تھے جب پانی کی میل گھڑے کی تہ میں بیٹھ جاتی تھی تو وہ اوپر سے پینے لگتے تھے ۔اب پینے کا پانی ایک ملک گیر مسئلہ بن چکا ہے اورکراچی میں ایک واٹر مافیا سر گرم عمل بتایا جاتا ہے۔ واٹر ریسرچ کونسل کی یہ رپورٹ کہ پاکستان کے82 فیصد شہری‘ گندہ پانی پیتے ہیں یقیناً دردناک ہے ۔
حال ہی میں فیر فیکس‘ ورجینیا‘ کے بورڈ آف سپر وائزرز کے اجلاس میں ایک ممبر نے یہ سوال اٹھایا کہ باٹلنگ کمپنیاں بوتلوں میں سادہ پانی بھر بھرکر کروڑوں ڈالر بنا رہی ہیں جب کہ ہم اپنے شہریوں کو صاف پانی مہیا کرکے ان کا عشر عشیر بھی نہیں کماتے۔ کیوں نہ ہم بھی اپنے پانی کو بوتلوں میں بھریں اور منڈی کی قیمت پر اسے فروخت کرکے کاؤنٹی کا خسارہ دور کریں؟ بورڈ نے اپنے رکن کی یہ تجویز یہ کہہ کر رد کردی کہ صارفین ہمارے پانی پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس اعتماد کو ٹھیس نہیں لگائی جا سکتی۔ ''ہمارا پانی‘ پینے‘ کھانا پکانے اور نہانے دھونے کے قابل ہے۔ ایک سرجن‘ مریض کا آپریشن کرنے سے پہلے اسی پانی سے اپنے ہاتھ دھوتا ہے‘‘۔ 
گزشتہ دنوں تھر میں کوئلے سے بجلی بنانے کے ایک منصوبے کا آغاز ہوا تو ذرائع ابلاغ نے زیادہ اجاگر اس حقیقت کو کیا کہ پاکستان میں پہلی بار ایک وزیر اعظم نواز شریف اور(عملاً) اپوزیشن لیڈرآصف علی زرداری نے یکجا ہو کر ایک منصوبے کا افتتاح کیا ہے ۔اس بارے میں زیادہ غور و فکر نہیں کیا گیا کہ علاقے کے ماحول پر اس کے کیا اثرات ہو ں گے ۔ وہاںبیک وقت بڑی تعداد میں پالتو بھیڑیں اور جنگلی مور کیوں مرتے ہیں؟ چین‘ بھارت اور امریکہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ہیں اور انہوں نے نا دانستہ طور پر دنیا کی آب و ہوا کو تلپٹ کر دیا ہے۔ کرۂ ارض کے گرم ہونے اور گلیشئر پگھلنے پر ان ملکوں میں قدرتی ماحول کی حفا ظت کا احساس جا گا ہے اور وہ اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار کو ایک نیا موڑ دے رہے ہیں ۔
یہ تاثر عالمگیر ہے کہ دنیا کی تیسری بڑی جنگ‘ پانی کے سوال پر لڑی جائے گی ۔ امریکی سینیٹ میں ایک پالیسی پیپر گردش کر رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن‘ خارجہ پالیسی کے اوزار سے پاکستان اور بھارت میں جنگ کے خطرے سے بچ سکتا ہے ۔کشمیر کا مسئلہ‘ پانی کا مسٔلہ ہے دونوں ملک سندھ طاس کے معا ہدے پر دستخط کر چکے ہیں اس معا ہدے کی رو سے سندھ کے پانچ بڑے الحاقی دریاؤں کی تقسیم ہو چکی ہے۔ راوی‘ بیاس اور ستلج پر بھارت کا حق ہے چناب جہلم اور سندھ کا پانی پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کراچی میں اس تاریخی عہد نامے پر دستخط کئے تھے اور 1960ء میں طے پایا تھا کہ جب تک پاکستان اپنے حصے کے دریاؤں پر بند باندھ کر آبپاشی کے متبادل انتظامات نہیں کر لیتا بھارت کشمیر کے بالائی علاقوں سے نکلنے والے سندھ اور اس کے زیر انصرام علاقے میں بہنے والے الحاقی دریاؤں کے پانی سے دس سال تعرض نہیں کرے گا ۔ گویا ایک عشرے کے بعد پانی کی ساجھے داری کا معاہدہ پانی کے بٹوارے کا سبب بن گیا ۔ نیل کے پانی پر مصر اور سوڈان یا ڈینیوب اور رائن کے پانیوں پر یورپی ملکوں کے نزاع کی خبریں کبھی نہیں آئیں مگر سندھ کے الحاقی دریاؤں کے پانی کا جھگڑا مستقل ہے اور بعض اوقات اسے ہم بین الاقوامی عدالتوں میں پاتے ہیں ۔بھارت کو بھی پانی کی قلت کا سا منا ہے ۔آندھرا پردیش ( سابق حیدر آباد دکن۔ آبادی تقریباً پاکستان کے برابر) کے بٹوارے اور نئی ریاست تلنگانہ کے قیام کے خلاف سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اس سے پانی کے محدود وسائل پر دبا ؤ بڑھ جائے گا اور علاقے کی اکانومی کو نقصان ہو گا۔
امریکی سینیٹ کی رپورٹ جس کا عنوان ہے Avoiding Water Wars اس کے عملے نے لکھی ہے اور اس میں افغانستان اور پاکستان میں وسطی ایشیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور پانی کی قلت کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس میں کہاگیا ہے کہ وسطی اور جنوبی ایشیا کے ملک پانی کے انتظام و انصرام کو بہتر بنانے کے لئے ایک دوسرے کو بنیادی اعداد و شمارBenchmark Data مہیا کریں۔ ''اوباما حکومت‘ دریاؤں کے بالائی اور زیریں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کر سکتی ہے‘‘۔ خطے کے ملک پانی کی قلت پر قابو پانے کے لئے محض انجینئرنگ کے کارناموں پر انحصار نہیں کر سکتے۔ انہیں اپنی موجودہ رسد کا بہتر انتظام کر کے کام کا آغاز کر نا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان میں پانی کے مسئلے کے حل میں امریکہ کے حصے کا اثر ان ملکوں کی سرحدوں سے آگے تک جانا چاہیے۔ خطے کی حکومتیں پانی کی بین الاقوامی جہتوں کو تسلیم کریں اور پانی کی رسد کو حیر ت اور صدمے سے پاک کرنے والے اداروں کو مضبوط بنائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں