2014ء: سا لنامہ

2014ء ماضی کی لحد میں اتر گیا اور اپنے پیچھے تلخ یادوں کا اندھیرا چھوڑ گیا۔پاکستان کے لئے پشاور کا سانحہ دردناک تھا جس میں تقریباً ڈیڑھ سو طلبا اور اساتذہ شہید ہوئے۔ یہ المیہ لاہور میں واہگہ بارڈر پر فوجی پریڈ دیکھنے کے لئے جمع ہونے والے شہریوں کے قتل عام کے ایک ماہ بعد رونما ہوا جس میں کم و بیش ساٹھ لوگ شہید ہوئے تھے۔ قوم کے مستقبل پر حملوں کے سلسلے میں پولیو ٹیموں پر فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوئے جن سے اس مہم کو جاری رکھنے میں دشواریاں پیش آئیں۔ اسی دوران بچوں کی تعلیم کے فروغ پر ملالہ یوسفزئی کو ایک بھارتی شہری کے اشتراک میں امن کا نوبیل پرائز مل گیا مگر اہلِ پاکستان نے طالبان کے ڈر سے اس عالمی اعزاز کا جشن نہیں منایا۔ان سے الگ ہر مہینے بڑے اور چھوٹے شہروں میں دہشت گردی کے پانچ چھ جان لیواواقعات جاری رہے مگر سولہ دسمبر کو دہشت گردوں کی گولی کا نشانہ بننے والے بچوں نے وہ کام کیا جو بڑوں سے نہیں ہوا تھا۔ساری قوم ایک صفحہ پر آ گئی اوروہ بہ یک زبان مسلح افواج کی اس مہم کی پشت پناہی کرنے لگی جو جون میں مذاکرات ناکام ہونے پرشمالی وزیرستان میں شروع کی گئی تھی۔استثنا کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ابو جہل ہر دور میں پائے جائیں گے۔
سانحہ پشاور کا ردعمل فوری اور شدید تھا۔ تحریکِ انصاف نے اپنا دھرنا ترک کیا۔سزائے موت پر پابندی ختم ہوئی اور انتہائی سزا پانے والے کیفر کردار کو پہنچنے لگے۔ان میں زیادہ تر دہشت گرد تھے۔بعض غمزدہ افراد نے مجرموں کو بر سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جو منطق سے عاری تھا۔ ضیا الحق کے عہد میں اس کا ایک تجربہ ہوا تھا جو بدیہی طور پر ناکام رہا۔ مجرموں کو لوگوں کی نظروں کے سامنے موت کے گھاٹ اتارنے سے عبرت کم اور بے حسی زیا دہ آتی ہے۔ دہشت گرد تو سر پر کفن باندھ کر آتا ہے اور اسے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔وہ اگر زندہ پکڑا جائے تو اس کو ٹھکانے لگا نے کے طریقے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمانی پارٹیوں کے لیڈروں سے صلاح مشورے کے بعد بیس نکات پر مبنی ایک لائحہ عمل قوم کے سامنے پیش کیا۔ اس میں فوجی عدالتوں کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کئے جا سکتے ہیں مگر جیسا کہ بعض سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں لائحۂ عمل کے مقاصدآئین میں ترمیم کے بغیر بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ایک ایسی قوم میںجہاں سیاسی لیڈروں ‘ صحا فیوں اور دانشوروں کے خلاف پرچہ کٹواتے وقت دہشت گردی کی دفعہ بڑھانے کے لئے پولیس کو رشوت دی جاتی ہو یا اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہو اس میں ''دہشت پسندوں‘‘ کو پکڑنے کے لئے ٹیلی فون نمبر مقرر کرنا یا فوجی عدالت بنانا خطرے سے خالی نہیں۔
دنیائے اسلام میں ایک خانہ جنگی کی فضا ہے۔ مسلم اکثریت کے کئی ملکوں میں انتہا پسند اپنی بات منوانے کے لئے میانہ رو لوگوں سے لڑ رہے ہیں اور ان ملکوں کی حکومتیں اکثریت کے ساتھ ہیں۔ اسی سال ISIS کا فتنہ کھڑا ہوا۔اب عراق اور شام کے کچھ سرحدی علاقوں پر‘ جن میں موصل اور رقعہ کے شہر بھی شامل ہیں‘ مشتمل ایک ''خلافت‘‘ قا ئم ہے جو عربی میں داعش کہلاتی ہے۔ پا کستان اور کئی دوسرے ملکوں کی دیواروں پر داعش کے حق میں نعرے درج کئے گئے مگر طالبان ہوں یا القاعدہ‘ بوکو حرام ہو یا ال شباب اور ان کی دھڑے بندیاں سب ایک ہی ذہنیت کے نام ہیں جو دنیا میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ صحیح ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے تک عراق اور شام ایک ملک تھے مگر اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش‘ برٹش انڈیا میں شامل تھے اور جس قوت نے میسو پوٹیمیا کو دو لخت کیا اسی نے بر صغیر میں اپنی قلمرو اور افغا نستان کو الگ الگ کرنے کے لئے ڈیورنڈ لائن کھینچی۔کیا ہم اس خط کو مٹانے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ 
اوباما نے وعدے کے مطابق افغا نستان میں نیٹو فوجوں کا لڑاکا کردار ختم کر دیا اور وہاں ان کی نفری ایک لاکھ بیالیس ہزار سے گھٹ کر تیرہ ہزار رہ گئی‘ جس پر طالبان بغلیں بجا رہے ہیں۔ شام اورعراق میں داعش کے ظہور کے بعد خطے میں امریکہ کے مفادات‘ ایرانی مفادات سے ملنے لگے جب کہ واشنگٹن شامی اپو زیشن کو صدر بشارالاسد کے خلاف امداد دے رہا تھا اور داعش نے شام میں دونوں متحارب طاقتوں کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔ افغانستان میں صدارتی الیکشن ہوا جو واشنگٹن میں عالمی بنک کے نائب صدر اشرف غنی اور سابق شمالی اتحاد کے لیڈر عبداللہ عبداللہ میں اختیارات کی تقسیم پر منتج ہوا۔ وہ دونوں امریکہ کے ان کہے اتحا دی ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور افغان صدر اشرف غنی اور ان کے آرمی چیف یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے ملک کے دورے پر گئے ‘ خیر سگالی کے الفاظ کا تبادلہ ہوا اور پہلی بار سر حد کے دونوں جانب دہشت گروں کے خلاف بلا امتیازفوجی کارروائیاں ہو ئیں۔اس دوران دونوں ملکوں پر امریکی ڈرون حملے بھی ہوئے مگر کابل اور اسلام آباد کی جانب سے پہلے کی طرح کوئی زور دار احتجاج سننے میں نہیں آیا۔پاکستان کے بعد بھارت میں بھی مذہبی جنون بڑھا جس کے نتیجے میں نریندر مودی نے حکومت بنائی مگر انہیں جموںو کشمیر میں خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔افغا نستان کے علاوہ بھارت سے بھی امریکہ کے تعلقا ت بہتر ہوئے ہیں۔ امریکہ خواہ لاکھ اپنی متوازن پالیسی پر زور دے مگر حقیقت یہ کہ کشمیر کے متعلق اس کی پالیسی بدل چکی ہے۔ امریکہ کے نزدیک کل تک یہ معاملہ کثیر قومی تھا اوراس نے اپنے ایک ایڈمرل کو بر صغیر روانہ کر دیا تھا مگر اب وہ اسے دو طرفہ کہتا ہے اور معا ہدہ شملہ کے بعد زور دے رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں۔
سال 2014ء امریکہ کے لئے بھی منحوس ثابت ہوا۔ اس نے اسرائیل اور کچھ دوسرے ممالک کی خواہش کے برعکس ایران کے جوہری منصوبے کی آڑ میں تہران پر بم باری سے اجتناب کیا لیکن پی ایل او اور حماس کے دوبارہ اتحاد کی بھنک پا کر دو ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت کا باعث بننے والے اسرائیل کی بم باری پر خاموش تماشائی بھی بنا رہا۔ اس سال آزاد فلسطین کے قیام کی ایک کوشش اور ہوئی جو امریکہ کی مخالفت کے باعث ناکام رہی۔اْسے نائن الیون کی جسامت کے کسی المیے کا سامنا تو نہیں ہوا مگر نسلی تقسیم کی گہرائی سے پالا پڑگیا۔ پولیس کے ہاتھوں چار کالے نوجوانوں کی ہلاکت کے بدلے نیو یارک میں دو گورے سپاہیوں کو قتل کر دیا گیا۔ ہر مہذب معاشرے میں پولیس کی عزت کی جاتی ہے مگر ان دونوں گروپوں میں انتہا پسند شامل تھے۔انہوں نے اشتعال پھیلانے کے علاوہ لوٹ مار بھی کی۔لوگوں نے واشنگٹن اور دوسرے بڑے شہروں میں مظاہرے کئے اور سڑکیں بلاک کیں۔ نصف صدی بعد کیوبا سے تعلقات کی بحالی اوباما حکومت کے ہیٹ میں سرخاب کا پر ہے جسے سونی پکچرز پر سائبر حملے نے روپوش کر دیا۔ فلم The Interview محدود پیمانے پر نمائش کے لئے پیش کردی گئی ہے جس میں شمالی کو ریا کے نوجوان صدر کے قتل کی سازش مزاحیہ انداز میں پیش کی گئی ہے۔ شمالی کوریا یہ الزام لگا رہا ہے کہ اوبامانے اس معاملے پر قوم کو مخاطب کرکے اشتعال انگیزی کی ہے۔ پہلی ترمیم کے نشے سے سرشار تماشائی کہہ رہے ہیں کہ وہ جو چاہیں گے دیکھیں گے‘ باہر سے کسی کو اپنی بات منوانے کا حق نہیں ہے۔ایبولا نے مغربی افریقہ میں سینکڑوں جانیں لیں اوروائرس امریکہ تک پہنچا۔ امریکہ میں دو سال پہلے کی نسبت پٹرول کے نرخ تقریباً آدھے ہو گئے‘ جو سعودیہ کا عطیہ ہے۔ واشنگٹن کے علاقے کی ایک کاؤنٹی نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی عہدیدار کو اپنے دفتر کی دیوار پر اپنی تصویر لگوانے کا شوق ہو تو وہ اپنے خرچ پر ایسا کرے۔سرکاری وسائل استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں