کرپشن کی بنا پر سزا پانے والے گورنر

ورجینیا کے سابق گورنر باب میکڈنل کی اہلیہ کو ایک سال ایک دن کی سزا ہوگئی ہے ۔شاید یہ سزا وفاقی وکیلِ سرکار کے نزدیک کافی نہ ہو جس نے جوری (جیوری) سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: متشکک عوام کو یہ دکھانے کے لئے کہ کرپٹ سیاستدانوں اور ان کی معاونت کرنے والوں سے سنجیدگی سے نپٹا جائے گا‘ ان کا جیل جانا ضروری ہے ۔ساٹھ سالہ مورین نے کہا: میری شادی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ میرا کنبہ دکھی ہے اور میری عزت خاک میں مل گئی ہے‘ مجھے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کو پہلا موقع ملا ہے‘ میں اپنے آپ کو جج کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں ۔ان کے شوہر کو گزشتہ مہینے اسی جرم میں دو سال قید کی سزا ہوئی تھی ۔جج نے دونوں کو اپیل کا موقع دینے کے لئے ضمانت پر آزاد رہنے کی اجا زت دے دی ہے ۔
یہ سزائیں ایک ایسے وقت ہوئی ہیں جب سابق گورنر کی ریپبلکن پارٹی کانگرس کے دونوں ایوانوں میں اکثریتی جماعت ہے اور ملک کا صدر ایک ڈیموکریٹ ہے مگر مقننہ نے ایک ساتھی کو بچانے اور انتظامیہ نے ایک مخالف کو جیل پہنچانے کی کوئی کوشش نہیں کی کیونکہ ان دونوں کو عدالت کی غیرجانبداری اور جوری کی دیا نت پر کوئی شبہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے کرپشن کی بنا پر دو درجن سے زیادہ ڈیمو کریٹک گورنر جیل کی ہوا کھا چکے ہیں یا اب بھی قید ہیں۔ کرپشن کا مفہوم خاصا وسیع ہے۔ کارگاہ سے ایک سوئی گھر لانے اور کروڑوں ڈالر کی رشوت وصول کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غریب اور امیر اس جرم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اسی لئے ایک انسانی معاشرے کی ترتیب و تنظیم کے لئے قانون بنایا گیا‘ جس کا ہمہ گیر اطلاق اس معاشرے کو زندہ رکھتا ہے ۔
امریکہ میں گورنر نمائشی نہیں‘ حقیقی ہے۔ وہ دو سال کے لئے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے اور وزیراعلیٰ جیسے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ عملی سیاست میں حصہ لینے سے پہلے مسٹر میکڈنل ایک قانون دان وکیل تھے مگر گورنر ہاؤس منتقل ہونے کے بعد ان کو یہ گمان ہوا کہ ان کے دستخط کی قیمت ہونی چاہیے ۔اگر ایک منصوبے کی منظوری دینے سے کسی کا فائدہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے ان کا اپنا فائدہ کیوں نہ ہو ؟ عین اس وقت جانی آر ولیمز سینیر نمودار ہوا‘ جو مسز میکڈنل کا ہم جماعت رہا تھا‘ جس کی کمپنی نے غذائی امداد کی دوا تیار کی تھی اور جو گورنر سے اس کی تشہیر چاہتا تھا۔ مسز میکڈنل نے اس رعایت کے بدلے مسٹر ولیمز سے قرض‘ سیر و سیاحت اور دوسری پُر تعیش چیزوں کی صورت میں (جن میں گورنر صاحب کے لئے ایک رولیکس بھی شامل تھی) ایک لاکھ ستتر ہزار ڈالر قبول کئے ۔پاکستان کے لحاظ سے یہ ایک معمولی رقم تھی مگر حکومت نے اسے رشوت دے کر سرکاری اثر و رسوخ خریدنے کے برابر جانا اور میاں بیوی کے خلاف فوجداری تفتیش کا حکم دیا جس کے نتیجے میں دونوں کو قید کی سزائیں ہوئیں ۔
مورین اور باب کے پانچ جوان بچے ہیں‘ جو باپ کی سزا یابی کے موقع پر موجود تھے ۔ماں کی سزا یابی پر تین آئے ۔بڑی لڑکی نے انہی دنوں ایک بچے کو جنم دیا ہے اور مورین نانی بن گئی ہیں۔انہوں نے اپنی شادی کے ناکام ہونے کی طرف جو اشارہ کیا وہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ قصر گورنر ی چھوڑنے کے بعد میاں بیوی الگ الگ رہتے ہیں اور وکیل صفائی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مورین ‘ باب سے پہلے ولیمز کے قریب ہو گئی تھی اور انہیں سابق کلاس فیلو پر ''کرش‘‘ تھا۔ یہ شادی کو کالعدم کرنے اور سابق گورنر کو بری کرانے کی کوشش تھی‘ جسے جج نے قبول نہ کیا اور دونوں کو کرپشن کی سزا دی؛ تاہم عدالت سے اپنی اپنی راہ لینے سے پہلے مورین نے باب کو گلے لگایا۔
نسلی امتیاز کے الزام سے بچنے کے لئے بیشتر تاجر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ برابر مواقع کے آجر ہیں ۔ Equal Opportunity Employerامریکی محاورہ بن چکا ہے‘ جسے بروئے کار لاتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کرپشن کاجرم بھی سب کے لئے ہے اور اس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ برابر کا حصہ لیتے ہیں اور گزشتہ تین عشروں میں کم و بیش پندرہ گورنر جیل جا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں الی نائے کے سابق گورنر راڈ بلاگووچ کی مثال دی جا سکتی ہے‘ جو ڈیمو کریٹ ہیں اور چودہ سال قید کی سزا بھگت رہے ہیں ۔اقبال جرم کرتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں : میں اس کا سبب بنا‘ میں کسی کوقصور وار نہیں کہتا‘ میں گورنر تھا اور مجھے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے تھا‘ مجھے بہت افسوس ہے۔
اکثر سیاستدان اقبال جرم کر لیتے ہیں ۔سابق گورنر بلا گو وچ نے بھی ایسا ہی کیا۔ بارک اوباما صدر چنے گئے تو انہیں کچھ عرصے کے لئے سینیٹ میں ان کی خالی نشست پُر کرنے کا اختیار تھا اور جسے مقرر کیا جاتا اس کے مستقل ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا تھا اس لئے نشست کی بولی لگی اور گورنر نے وصولی کی‘ مگر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ پارٹی فنڈ کے لئے رقم وصول کی ۔جج نے یہ موقف تسلیم نہ کیا ۔گو ورجینیا میں ایک سابق گورنر کی یہ پہلی سزا یابی تھی مگر صدر اوباما کے حلقہ انتخاب سے اب تک تین گورنر سیاسی کرپشن کی بنا پر جیل جا چکے ہیں۔
انتخابی مہم کے لئے چندہ جمع کرنا ہر امیدوار کا فرض ہے اور اس کام میں کامیابی کو الیکشن میں اس کی فتح سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔روڈ آئی لینڈ کے ریپبلکن گورنر نے بھی اپنی صفائی میں یہی موقف اختیار کیا: مہم کے اخراجات کے لئے روپیہ فراہم کرنے کے دبا ؤ نے ظاہر ہے کہ میرا تناظر دھندلا دیا تاہم میں روڈ آئی لینڈ کے ہر شہری کو یقین دلا سکتا ہوں کہ جو کچھ بہترین تھا آپ کے حصے میں آیا ۔ یہ کہا ایڈورڈ ڈیپرے نے جس نے بیٹے کی شراکت میں ریاستی ٹھیکوں کے عوض تین لاکھ ڈالر رشوت میں وصول کئے تھے۔ بیٹے سے نرمی کی بنا پر ڈیپرے نے کرپشن کے اٹھارہ الزامات میں اقبال جرم کیا جن میں رشوت ستانی اور پیسہ بٹورنا بھی شامل تھے۔ اسے کم سے کم حفاظت کے قید خانے میں ایک سال گزارنے کی سزا ہوئی اور یوں بڑی کرپشن کے جرم میں ایک چھوٹی سی ریاست کا گورنر 1994ء میں پہلی بار جیل گیا۔
تفتیش کاروں کو لوزی آنا کے ڈیموکریٹک گورنر ایڈ ون ایڈورڈز پر ہاتھ ڈالنے میں تیس سال لگے۔ 2000ء میں جب کمپنیوں نے ریاست میں قمار خانے کھولنے کے لائسنس کے لئے درخواستیں دیں تو اس نے ان سے تیس لاکھ ڈالر بٹورے اور ایک جوری نے اسے قصوروار قرار دیا ۔تب اس کے خلاف پیسہ بٹورنے‘ میل فراڈ اور منی لانڈرنگ کے سترہ الزامات کی بنا پر مقدمہ چلایا گیا تو اسے دس سال قید کی سزا ہوئی ۔اس وقت اس کی عمر بہتر سال تھی اور پینتیس سال پرانی اہلیہ اظہار یک جہتی کے لئے اس کے شانہ بشانہ تھی ۔چار سال پہلے جب وہ قید کی سزا کاٹ کر جیل سے باہر آیا تو اس کے ساتھ اس کی نئی بیوی تھی جو اس سے پچاس برس چھوٹی تھی۔گزشتہ سال ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جسے انہوں نے بڑے فخر سے اپنے حواریوں کو دکھایا ۔اب دھان پان ریپبلکن بابی جنڈل ریاست کے گورنر ہیں اور ہندوستانی والدین کی امریکی اولاد ہونے کے ناتے بعض اوقات مسلمانوں کو سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں ۔ پچھلے دنوں بولے: عسکریت پسندوں نے امریکہ میں نو گو ایریاز بنا رکھے ہیں جہاں مسلمانوں کے سوا کسی کو جانے کی اجازت نہیں ۔
باب میکڈنل کی طرح‘ کنی ٹیکٹ کے گورنر جان رالینڈ بھی صدر کے منصب کے لئے موزوں سمجھے جاتے تھے ۔ اس نے 2005ء میں سرکاری منصب سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا اعتراف کیا ۔اس کا جرم بھی مسٹر میکڈنل سے ملتا جلتا تھا ۔اس نے غیر قانونی سیر وسیاحت اور لاس ویگاز‘ ورمانٹ اور فلوریڈا میں دوسروں کے خرچ پر چھٹیاں منانا اور جھیل کنارے اپنے ہٹ کو بہتر بنانا تسلیم کیا ۔اسے دس ماہ قید کی سزا ہوئی۔ ''میں آج یہاں پیش ہونے پر نا دم ہوں اور میں ہر ایکشن کے لئے اپنے اقدامات کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں