فتح کی خاطر تعلقات کی کراکری توڑنے والا

بنجمن نیتن یاہو (بی بی) چوتھی مدت کے لئے اسرائیل کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں اور یوں ان کا ملک امریکہ سے تعلقات کے میدان میں اور پیچھے ہٹ گیا ہے۔ الیکشن سے دس دن پہلے کانگرس میں ریپبلکن پارٹی کے لیڈر جان بینر کی دعوت پر بی بی کا امریکہ آنا‘ وائٹ ہاؤس کو اطلاع دیے بغیر ایران کے موضوع پر تقریر کرنا اور اس کے بعد سینتالیس ریپبلکن قانون سازوں کا تہران کو یہ انتباہ کہ اگر کانگرس نے سوئٹزرلینڈ میں مذاکرات کے بعد طے پا نے والے سمجھوتے کو '' بْرا‘‘ خیال کیا تو وہ اسے کالعدم کر دے گی‘ خارجہ پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش تھی‘ جس کا وائٹ ہاؤس نے بْرا منا یا۔صدر بارک اوباما نے تل ابیب سے بی بی کی فتح کی خبریں آنے پر انہیں مبارک باد دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جب کہ ان کے مغربی اتحادی رسماً ایسا کر رہے تھے۔
ووٹنگ سے ایک روز پہلے بی بی نے ایک بم شیل اور پھینکا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے دوران آزاد فلسطین قائم نہیں ہو گا۔یہ بات ان کے اپنے موقف کے منا فی تھی۔ وہ دس سال سے یہ کہہ رہے تھے کہ فلسطینیوں سے بات چیت کا مقصد اقوام متحدہ کے اختیار نامے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں ان کی الگ ریاست قائم کرنا ہے۔وہ مشرق وسطیٰ کے لئے ایران کا ہوّا کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے تھے‘ جس میں وہ کامیاب ہوئے اور اس دوران یہ بیان بھی دے ڈالا کہ اسرائیل کے عرب شہری ‘ گروہ در گروہ ان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ان کا اشارہ ''مشترکہ فہرست‘‘ پارٹی کی جانب تھا جس کے مطابق عرب ووٹروں نے بی بی کی دائیں بازو کی قدامت پسند پارٹی لی کڈ کے امیدواروں کے خلاف رائے دی۔اسرائیل کے ساٹھ لاکھ ووٹروں میں سے تقریباً بیس فیصد مسلمان اور مسیحی عرب ہیں‘ جو کل تک منتشر تھے۔ ایک سو بیس رکنی اسرائیلی پارلیمنٹ میں بی بی کی پارٹی کو تیس نشستیں ملی ہیں اور ان کے مخالف اسحاق ہر زوگ کی زائنسٹ یونین کو چوبیس‘ باقی نشستیں آٹھ پارٹیوں میں بٹ گئی ہیں‘ جن کو چار سے چودہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ظاہر ہے کہ بی بی ایک بار پھر دوسری پارٹیوں بالخصوص مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک مخلوط حکومت بنائیں گے۔
مگر نئی نیتن یاہو حکومت کو ملک کے اندر‘ باہر اور سرحدوں پر کئی چیلنج در پیش ہو ں گے۔ بی بی کے تازہ اعلان سے امریکیوں کو یہ تاثر ملا کہ وزیر اعظم کی اصل نیت اب سامنے آئی ہے‘ یہ کہ دو ریاستوں کی حمایت کرکے وہ امریکہ کا وقت ضائع کرتے رہے ہیں۔ ویسٹ بینک پر چالیس سالہ اسرائیلی قبضے سے پر یشان یورپی ملک کھلے بندوں اسرائیل کے خلاف اقتصادی تعزیریں عائد کرنے کی بات کرنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تل ابیب کو انسانی حقوق کے معا ملے میں اسرائیل کے ریکارڈ کے پیش نظر مزید قراردادوں کا انتظار کرنا چا ہیے۔ بی بی نے بیت المقدس میں ایک ناجائز بستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے حواریوں سے پوچھا‘ کیا آپ اس اسرائیلی بستی کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ تو ان کو جواب میں '' نہیں نہیں ‘‘ کے خوش آئند نعرے سنائی دئے۔اقوام متحدہ نے الیکشن کے نتیجے پر لب کشائی کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی کہ اسرائیل ایک آزاد فلسطین کے قیام کے لئے مشرق وسطیٰ میں امن کی کوشش جاری رکھے گا۔فلسطینی قیادت نے ایک بیان میں کہا کہ یکم اپریل کو وہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے ہیگ‘ نیدر لینڈ جائے گی اور غزہ میں پچاس دن کی حالیہ لڑائی کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل کے فوجیوں اور لیڈروں پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلائے گی۔اقوام متحدہ بیشتر اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور بستیوں کو خلاف قانون قرار دے چکی ہے۔ نیتن یاہو کہہ چکے ہیں کہ اقوام متحدہ کو جنگی جرائم پر حماس کی مذمت کرنی چاہیے۔
ایرانی لیڈر بی بی کی انتخابی تقریروں اور الیکشن کے نتیجے پر جو کچھ کہیں گے وہ اسے خاطر میں نہیں لائیں گے۔ وہ پہلے ہی انہیں '' بھیڑ کی کھال میں بھیڑیے ‘‘ سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ لوسان‘ سوئٹزرلینڈ میں‘ جہاں مذاکرات کی آخری تاریخ تیس مارچ ہے‘ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ نیتن یاہو کی فتح ‘ اسرائیل اور خطے کے لئے ایک ''قدم پیچھے‘‘ ہٹنے کی طرح ہے۔ روس اور چین ان مذاکرات میں جس ثابت قدمی سے امریکہ کے ساتھ کھڑے ہیں کسی اور معاملے میں نظر نہیں آئے۔منگل کے الیکشن کے بعد امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات مزید خراب ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جاش ارنسٹ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ جس طرح عرب ووٹروں کو دیوار سے لگایا گیا‘ امریکہ اور اس کی انتظامیہ کو اس پر گہری تشویش ہے۔ اس سے ''وہ اقدار اور جمہوری آدرش جو ہماری جمہوریت سے خاص ہیں اور امریکہ اور اسرائیل کے رشتوں کو مضبوط بناتے ہیں کمزور ی کا باعث بنے ہیں۔‘‘ ارنسٹ نے مزید کہا کہ الیکشن کی شام اسرائیل اور فلسطینیوں کے لئے دو ریاستوں کے حل سے مسٹر نیتن یاہو کی لا تعلقی‘ خطے میں امن کے طرز عمل پر امریکہ کونظر ثانی کے لئے مجبور کرے گی۔
اگر جان کیری کا سمجھوتہ نیتن یاہو کے معیار پر پورا نہیں اترے گا تو وہ امریکی کانگرس کے ریپبلکن ارکان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔قانون ساز کہہ چکے ہیں کہ ایک بْرے سودے کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔سابق امریکی سفیر مارٹن انڈائک نے‘ جو اب واشنگٹن کے تھنک ٹینک بروکینگز کے نائب صدر ہیں‘ کہا: یہی وہ مقام ہے جہاں تصادم ہو گا اور ایسا جلد ہو گا۔ انہوں نے کہا: '' الیکشن میں کامیابی کی راہ پر چلتے ہوئے نیتن یاہو نے تعلقات کی بہت سی کراکری توڑی ہے ‘‘ امریکہ ‘ فلسطینی اتھارٹی کو کروڑوں ڈالر کی اقتصادی امداد دیتا ہے۔ اسرائیل نے رائے دہندگان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اتھارٹی کو سزا دینے کے لئے اس کی ٹیکسوں کی آمدنی منجمد کر دے گا۔امریکہ دونوں کے بیچ پھنس جائے گا۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ دونوں جانب کو اعتدال کی راہ اختیار کرنے پر آمادہ کرے مگر نیتن یاہو کا یہ اعلان کہ ان کی حکومت میں کوئی فلسطینی ریاست نہیں ہو گی‘ اسے زیادہ مشکل بنا رہی ہے۔ اگر امریکہ دونوں کو ہاتھ '' ہولا‘‘ رکھنے پر آمادہ نہیں کر پاتا تو اتھارٹی منہدم ہو سکتی ہے کیونکہ وہ تنخواہیں نہیں دے پائے گی؛ تاہم تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کے لیڈر باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر فوجی اور اقتصادی امور پر‘ جو متفقہ ہیں‘ زیا دہ زور دیں گے۔تل ابیب سے آمدہ اطلاعات کے مطابق مسٹر ہرزوگ نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہو ئے کہا کہ وہ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) میں ایک مضبوط اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں