حکومت پاکستان نے Save the Children کے نام سے کام کرنے والی ایک این جی او کو مبینہ طور پر ملک سے خارج کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں وزیروں کی ایک کانفرنس ہوئی۔ سنتے ہیں کہ اس گفت و شنید سے جو نتیجہ نکلا وہ اتنا تھا کہ ہر این جی او اپنے چارٹر کے مطابق کام کرے گی اور سال میں ایک بار نہیں دو دفعہ متعلقہ محکمے میں اپنی رجسٹریشن کرائے گی۔تین دن پہلے یہ فیصلہ اس بنا پر کیا گیا تھا کہ غداری کے جرم میں سزا پانے والا ایک ڈاکٹر اس این جی او کے ملازم ایک غیر ملکی کے گھر پر امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی ایجنٹ ایک خاتون سے متعارف ہوا تھا اور بعد میں کئی بار اس سے ملا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی‘ جو 23سال قید کی سزا بھگت رہا ہے‘ خاتون کے اصل کام سے بے خبر ہو۔ سیمور ہرش کی حالیہ اطلاع کے مطابق اگرچہ پاکستانی حکام بھی آفریدی کی تصدیق کے بعد ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مکان پر امریکی یورش کا پیشگی علم ہونے سے انکار کر رہے تھے مگر 2مئی 2011ء کی کا رروائی سے پہلے پاکستان کو اس منصوبے سے آگاہ کر دیا گیا تھا۔
'' بچوں کو بچاؤ ‘‘ ایک عالمی تنظیم ہے جس کاایک دفتر فیرفیلڈ کنٹی کٹ میں ہے اور جو دنیا بھر میں زلزلے‘ سیلاب‘ مفلسی اور بے توجہی سے متاثر ہونے والے بچوں کی امداد کر رہی ہے۔1919ء میں ایگلنٹائن جیب(Jebb Eglanetyne ) نے اس کی بنیاد برطانیہ میں رکھی تھی۔اپنے دعوے کے مطابق وہ 2013ء میں 143 ملین بچوں کو سہارا دے چکی ہے اور سال 2013-2015ء میں بچوں کی بدلتی ہوئی ضروریات اور ہمارے گرد رو نما ہونے والی تبدیلیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے کام کرے گی۔گو پاکستانی حکام نے اسے سی آئی اے کی مذموم سر گرمیوں میں تعاون کی بنا پر دیس نکالا دیا مگر تنظیم ‘ امریکی جاسوس ادارے سے کوئی رشتہ ظاہر نہیں کرتی ما سوائے اس امر کے کہ اس کے کام کی تفصیلات ایجنسی کے سالانہ ''حقائق نامے‘‘ میں بھی د یکھی جا سکتی ہیں۔پاکستان میں کم و بیش ایسی دو ہزارتنظیمیں کام کر رہی ہیں جو بیرونی ذرائع سے مالی امداد لیتی ہیں اور ان میں سے انیس کی سرگرمیاں مشکوک بیان کی جاتی ہیں۔ وہ در اصل اس خلا کو پْر کرنے کے لئے آئی ہیں جو معاشرتی بہبود کے میدان میں حکومت کی کوتاہی یا ناکامی سے پیدا ہو تا ہے۔وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز میں امتیاز کیا اور زور دے کر یہ بات کہی کہ بعض تنظیمیں '' اچھا‘‘ کام کر رہی ہیں، '' کسی کو ہراساں کرنا مقصود نہیں ہے ہر این جی او کو اس کے چارٹر کے مطابق کام کرنے کا موقع دینا ہے‘‘ اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتا یا کہ ''بچاؤ‘‘ کی صوبائی شاخیں بدستور کام کر رہی ہیں صرف اسلام آباد میں اس کے مرکزی دفتر کو سر بمہر کیا گیا۔
ایک سال قبل پاکستانی فوج نے سول حکومت کی نیم رضامندی کے ساتھ فاٹا کے آس پاس مہم شروع کی۔اس سے پہلے علاقے کو آبادی سے خالی کرا لیا گیا تھا۔بیشتر این جی اوز‘ جو صحت اور تعلیم کے میدان میں کام کرتی ہیں‘ کے غیر ملکی عہدیدار عارضی طور پر اپنے گھروں سے اجڑنے والوں کی امداد کے لئے ان کے کیمپوں میں جاتے تھے جو حکام کی نگاہ میں قابل اعتراض تھا۔شکیل نے ایجنسی کے لئے فاٹا میں کئی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دینے کے بعد ایبٹ آباد میں خون کی بیماری کے جائزے کا ڈراما رچایا جس سے ثابت ہوا کہ القاعدہ کا لیڈر اسی شہر میں روپوش ہے۔
مچل کلوسن (Michael Klosson) جو '' بچوں کو بچاؤ‘‘ کے امریکی امور کے نائب صدر ہیں‘ دعوی کرتے ہیں کہ سی آئی اے میں شکیل آفریدی کی بھرتی سے ان کی تنظیم کا کوئی تعلق نہیں اور وہ اس کی گرفتاری کے بعد پاکستانی تفتیش کاروں سے پورا تعا ون کرتی رہی ہے۔اس کے بعد تنظیم نے اپنا غیر ملکی سٹاف پاکستان سے ہٹا لیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ '' ضابطے کی کارروائی ‘‘ تھی جو بن لادن کی ہلا کت کے بعد شروع کی گئی تھی اور اب مکمل ہوئی ہے۔
پاکستان نے '' بچوں کو بچاؤ‘‘ کی تنظیم کے کارندوں کو ملک چھوڑنے کے لئے پندرہ دن کی مہلت دی مگر امریکہ میں تنظیم کی ڈائریکٹرتعلقات عامہ ایلین برک کے دستخط سے جاری ہونے والے ایک پریس نوٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سب کے سب بارہ سو سٹاف ممبر پاکستانی تھے اور کوئی غیر ملکی وہاں کام نہیں کر رہا تھا۔ 2012ء میں پاکستانی حکام نے'' بچوں کو بچاؤ ‘‘ پر الزام لگایا کہ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے جسے سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے کے لئے ملازم رکھا تھا۔تب این جی او کے امریکی ریجنل ڈائریکٹر نے شکیل آفریدی کے کیس کی تحقیقات کرنے والے کمشن کے سامنے الزام کی تردید میں شہادت دی اور تنظیم کے غیر ملکی عہدیداروں کو بتایا گیا کہ ان کے ویزوں کی تجدید نہیں ہوگی۔اب بین الاقوامی با اثر تنظیم کے برطانوی اور امریکی دفاتر کی اپیل پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
شکیل آفریدی نے ہیپا ٹائٹس کی آڑ میں ایبٹ آباد کے لوگوں کے خون کا ٹیسٹ کیا‘ جس سے تصدیق ہوئی کہ بن لادن اسی شہر میں رہتا ہے۔اس وقت مس برک نے ایک امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تنظیم نے کوئی نا مناسب کام نہیں کیا مگر انہوں نے یہ مانا تھا کہ ڈاکٹر آفریدی نے ایسے کئی تربیتی کورسوں میں شرکت کی جو ''بچوں کو بچاؤ‘‘ کے زیر اہتمام ہوئے تھے‘ گویا تنظیم سے شکیل آفریدی کا رشتہ واضح تھا مگر شاید یہ بات اس کے علم میں نہیں تھی کہ وہ سی آئی اے کا کام کر رہا ہے۔
'' بچوں کو بچاؤ‘‘ کے بند کرنے سے اس کے دو ہزار پاکستانی کارکن روزگار سے محروم ہو رہے تھے۔ حکومت این جی او کے خلاف اندھا دھند کارروائی کرتی تو مزید ہزاروں افراد اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔اگر حکمرانوں کو ضرورت مندوں کی امداد ٹیلی وژن کے فیچر دیکھ کر ہی کرنی ہے تو یہ سلسلہ بھی ٹھیک رہے گا۔تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ پینتیس سال سے پاکستان میں خدمت کر رہی تھی اور اس نے ہر کام وزارتوں کے تعا ون سے کیا ہے۔
یہاں محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی خیراتی اداروں اور دوسرے این جی او کی پکڑ دھکڑ پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ ایک شفاف عمل کی معیار بندی کرے جو ایسی تنظیموں کو مقامی قانون کے مطابق کام کرنے کا موقع دے۔ سرکاری محکمے نے سی آئی اے کا نام لئے بغیر'' بچوں کے بچاؤ‘‘ نامی تنظیم سے اس کے روابط کی تحقیقات کا وعدہ کیا۔امریکہ میں سی آئی اے کی سر گرمیوں کو اس طرح برا نہیں سمجھا جاتا جس طرح کہ پاکستان یا بہت سے دوسرے ترقی پزیر ملکوں میں ہوتاہے۔واشنگٹن کے باہر لینگلے ورجینیا میں سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹرز کو ایک اور وفاقی محکمہ خیال کیا جاتا ہے جس کا تازہ ترین کام‘ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنا ہے اور جس کے لئے اسے ایک بلین ڈالر خرچ کرنے کا اختیار ہے۔اس سے پہلے یہ ایجنسی ملک میں قانونی گنجائش نہ پاکر ایشیا اور یورپ کے دوست ملکوں میں دہشت گردی کے الزام میں پکڑے جانے والے آدمیوں کے لئے پرائیویٹ جیلیں قائم کرکے رسوا ہو چکی ہے۔ وائٹ ہاؤس دنیا کے جس خطے میں فوج کی تعیناتی مناسب خیال نہ کرے وہاں قانون نافذ کرنے والے سویلین ادارے سے کام لیا جاتا ہے جو پاکستان اور دوسرے ملکوں میں ڈرون حملے کرتا ہے۔پاکستان کو مبینہ طور پر '' بچوں کو بچاؤ‘‘ کی نا قابل فہم سر گرمیوں کا پورا احساس گزشتہ سال بہار کے موسم میں ہوا جب اسے معلوم ہوا کہ تنظیم کے کچھ غیر ملکی عہدیدار شمالی وزیرستان آتے جاتے رہے ہیں۔یہ وہ وقت تھا جب پاکستان آرمی نے اس علاقے میں انتہا پسندوں کے خلاف ضرب عضب کے نام سے ایک کارروائی شروع کی تھی جو اب تقریباً کامیاب بتائی جا رہی ہے۔