دوہری شہریت

دوہری شہریت کے حامل اسرائیلی جاسوس جوناتھن پالرڈ Pollard Jonathanکو تیس سال قید کاٹنے کے بعد نومبر میں رہا کر دیا جائے گا۔ اسرائیلی لیڈر اور امریکی یہودی شروع ہی سے اس سزا کی مخالفت کر رہے تھے اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے تو اس مطالبے کو سرکاری پالیسی بنا لیا تھا۔ گو پالرڈ نے ہزاروں سرکاری راز اسرائیل کے حوالے کرنے کا جرم تسلیم کیا اور یہ دلیل پیش کی تھی کہ اس نے اسرائیل سے ''نظریاتی وفاداری‘‘ میں ایسا کیا اور اس میں امریکہ کے خلاف کسی بدنیتی کا شائبہ تک نہیں تھا اور یہ کہ معلومات‘ پاکستان‘ عرب ملکوں اور سوویت یونین کے بارے میں تھیں۔
نومبر 1985ء میں جب امریکی بحریہ کے ملازم پالرڈ کو جاسوسی کی بنا پر گرفتار کیا گیا تو اسرائیلی یہود کا کہنا تھا کسی دوست ملک کے خلاف جاسوسی کیسی؟ پالرڈ کو ناجائز طور پر حراست میں لیا گیا ہے؛ تاہم امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی پالرڈ کی رہائی یا معافی کے خلاف تھی۔ 1998ء میں اس وقت کے ڈائریکٹر سی آئی اے جارج ٹینٹ نے اسرائیل کے ساتھ پالرڈ کی رہائی کا سودا ردکر دیا اور دھمکی دی تھی کہ اگر پالرڈ کو چھوڑ دیا گیا تو وہ اپنے منصب سے الگ ہو جائیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ‘ اسرائیل کو ایران سے جوہری ہتھیار نہ بنانے کا معاہدہ قبول کرنے کے عوض جو مراعات دے رہا ہے‘ ان میں سے ایک کی صورت سامنے آ گئی ہے۔ محکمہ انصاف نے اعلان کیا ہے کہ خزاں میں جب جوناتھن پالرڈ پیرول پر رہائی کا حق دار ہو گا تو وہ مخالفت نہیں کرے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ میں عمر قید کا مطلب ہے کہ قیدی اپنی زندگی کی آخری سانس جیل میں لے گا۔ پالرڈ کو تیس سال کی قید کے بعد رہا کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کو امید ہے کہ اس سے امریکہ اسرائیل تعلقات جو ایک عرصے سے خراب ہیں‘ بہتر ہو جائیں گے۔ وزیر دفاع ایشٹن کارٹر حال ہی میں تل ابیب میں تھے اور اسرائیلیوں کو رام کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
محکمہ انصاف نے ہمیشہ یہ موقف دیا کہ پالرڈ کو ان سنگین جرائم کی سزا پوری کرنی چاہیے‘ جو اس سے سرزد ہوئے۔ اب یہ موقف تبدیل کیا جا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس تاثر کو مسترد کر دیا ہے کہ پالرڈ کی رہائی میں وہ کوئی سیاسی فائدہ دیکھتا ہے۔ باایں ہمہ پالرڈ کی رہائی سے جاسوسی کا ایک کیس‘ جو اوباما انتظامیہ کی درد سری کا باعث تھا‘ حل ہو جائے گا۔ اسرائیل اور باقی دنیا میں پالرڈ کے حواریوں کا کہنا تھا کہ دیر آید درست آید۔ اس کے حق میں قائم شدہ ایک ویب سائٹ میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں بعض امریکی حکام نے اسرائیل کو انٹیلی جنس معلومات دینے پر جو غیر رسمی پابندی عاید کی تھی‘ پالرڈ نے زیادہ سے زیادہ اسے توڑا۔ امریکہ کا کہنا تھا کہ پالرڈ کی جاسوسی اس حد سے کہیں زیادہ تھی جس کا اس کے حامی اعتراف کرتے ہیں۔ 1998ء میں نیوی کی انٹیلی جنس کے تین ڈائریکٹروں نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ اقبال جرم کے سبب پا لرڈ کا کیس جیوری کے سامنے پیش نہیں ہوا جس کے باعث یہ تفصیلات عوام کی نظروں سے اوجھل رہیں کہ مجرم نے تین دوسرے ملکوں کو سرکاری راز دینے کی پیشکش کی اور اسرائیل کے لئے کام کرتے ہوئے ایک چوتھے ملک کو بھی اپنی خدمات پیش کر دیں۔ مضمون میں استدلال کیا گیا تھا کہ ان دستاویزات کی ضخامت‘ جو اس نے اسرائیل کے حوالے کیں‘ بے مثال ہے۔ اب بھی جب اس کے حواری اسے نظریہ ساز کہتے ہیں‘ مخالف اس کی نشہ خوری اور دروغ بافی کی رپورٹوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
پالرڈ کی رہائی کے لئے اسرائیلی مہم نے زور پکڑا مگر صدر اوباما نے اس کی رہائی پر غور سے انکار کیا اور ہنگامی حالات میں بھی اسے گھر جانے کی چھٹی نہ دی۔ 2013ء میں اسرائیل کے سرکاری دورے سے قبل انہوں نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا: میری بنیادی ذمہ داری یہاں امریکہ میں قانون کی پاسداری ہے اور اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ وہ مسلسل لاگو ہو رہا ہے۔ تاہم پالرڈ کے معاملے میں اس رائے میں تبدیلی کے آثار ہیں۔ وہ اب 59 کے پیٹے میں ہے اور اس کی صحت اچھی نہیں۔ کچھ غیر متوقع لوگ اس کی رہائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ان میں سینیٹر جان مکین بھی شامل ہیں۔
2014ء میں یہ امکان روشن تھا کہ امریکہ‘ مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی خا طر تجزیہ کار پالرڈ کی رہائی پر غور کر رہا ہے۔ واشنگٹن کو امید تھی کہ پالرڈ کی رہائی کے بعد اسرائیل کچھ فلسطینیوں کو اپنی قید سے آزاد کر ے گا اور فلسطینی خطے میں اسرائیلی بستیا ں بسانے کا سلسلہ رو ک دے گا۔ امن مذاکرات کی ترقی میں یہ دو نکات حائل تھے‘ مگر نہ تو پالرڈ کو چھوڑا گیا اور نہ امن کی بات چیت آگے بڑھی۔ جو اب ہو رہا ہے وہ البتہ مختلف ہے۔ محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ پالرڈ نومبر میں ''ہدایتی پیرول پر رہائی کا اہل ہو گا۔‘‘ گویا نہ تو اسے رہا کرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ اسے معاف کیا جائے گا؛ تاہم خبر کا وقت ظاہر کرتا ہے کہ پالرڈ کی آزادی‘ اسرائیل کو خوش کرے گی۔
اگرچہ کم و بیش 32 کروڑ کی آبادی میں یہودی صرف دو فیصد ہیں مگر ان میں سے کئی بیک وقت امریکی اور اسرائیلی شہریت کے مالک ہیں۔ دوہری شہریت کی ایک مثال پالرڈ کیس ہے۔ ایک بار جنرل ضیاالحق سے واشنگٹن میں پوچھا گیا‘ تو انہوں نے جواب دیا تھا: ہم تو اپنے لوگوں کو دوہری شہریت دینے کے لئے تیار ہیں امریکہ نہیں مانتا‘ وہ دوہری شہریت کے معاملے میں ترک و انتخاب کرتا ہے‘ وہ 193 میں سے 41 ملکوں کے تاز ہ واردوں کو دوہری شہریت دیتا ہے‘ پاکستان اور بھارت اس فہرست سے خارج مگر اسرائیل اور بنگلہ دیش داخل ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی امریکی ہیں یا کچھ پاکستانی جو گرین کارڈ اور وزٹ ویزا پر اس ملک میں داخل ہوئے ہیں اور شہریت کا انتظار کر رہے ہیں۔
اگرچہ ہمسائے مصر اور اردن اورشمالی افریقہ کے بیشتر ملکوں نے اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا ہے مگر سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ملکوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ پاکستان اور ایران بھی‘ فلسطین کے قیام تک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اگلے روز پاسداران انقلاب ( فوجوں) کے کمانڈر علی جعفری نے کہا: عراق‘ شام‘ یمن‘ لبنان اور اس اکائی کے‘ جو ایران میں فلسطین کہلاتی ہے‘ لوگ جانتے ہیں کہ اسے ''عالمی رعونت‘‘ سے آزادی ملنی چاہیے۔ اس طرح ایران نے اسرائیل کو قوم یا ملک کہنے کی بجائے ''اکائی‘‘ سے تعبیر کیا۔
جوناتھن پالرڈ متصلہ جنوبی ریاست نارتھ کیرولینا کی ایک وفاقی جیل میں بند ہے۔ اسے اسرائیلی شہریت‘ قید کی حالت میں پیش کی گئی تھی۔ اس نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اسرائیل سے وفاداری کے علاوہ اسے سرکا ری رازوں کے عوض پچاس ہزار ڈالر ادا کئے گئے تھے اور وہ مزید رقوم کی وصولی کا بھی امیدوار تھا۔ آرمی کا پرائیویٹ بریڈلی میننگ‘ جو مرد سے عورت بن چکا ہے اور چیلسی میننگ کہلاتی ہے‘ ہزاروں دستاویز ''وکی لیکس‘‘ کو دینے کے جرم میں قید ہے مگر اسرائیل نے اس کے رہائی کے لئے کبھی نہیں کہا کیونکہ وہ یہودی نہیں سیاہ فام ہے۔ حال ہی میں سابق اٹارنی جنرل (وزیر قانون) ایرک ہولڈر جونیر نے کہا کہ اگر سابق انٹیلی جنس کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن سے‘ جسے روس نے سیاسی پناہ دی ہے‘ اقبال جرم پر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو حکومت کا یہ اقدام دانش مندانہ ہو گا۔ سنوڈن نے ''حب الوطنی‘‘ کے جذبے کے تحت ہزاروں سرکاری رازوں کا انکشاف کیا تھا اور اس نے مزید راز پریس کے حوالے کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل سنوڈن کی جلاوطنی پر بھی خاموش ہے کیونکہ وہ یہودی نہیں بلکہ ملک کی اسی فیصد آبادی کی طرح گورا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں