شامی مہاجروں کے ازدحام میں

طا قت ور امریکی خیراتی ادارے بارک حسین اوباما کی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ امریکہ میں آباد کئے جانے والے شامی پناہ گزینوں کی تعداد دوگنی کر دی جائے۔ امریکی قانون کی رو سے پناہ گزین (Refugee) اور تارک وطن (Immigrant) میں فرق ہے۔ مجبوری کے تحت ترک وطن کرنے والا پناہ گزین یا ریفیوجی ہے اور اقوام متحدہ کے رکن تمام ملک اسے ریفیوجی سٹیٹس دیتے ہیں جبکہ اختیاری ( بخوشی ) ترک وطن کرنے والا امیگرنٹ ہے اور متعلقہ ملک یا اس کا کوئی شہری اس کاکفیل یا سپانسر۔ وزیر خارجہ جان کیری نے وعدہ کیا ہے کہ یکم اکتوبر کو شروع ہونے والے مالی سال کے دوران امریکہ مزید دس ہزار افراد کو پناہ دے گا جس میں اکثریت شامی ہوگی۔ اقوام متحدہ کے ایک معاہدے کی رُو سے امریکہ ہر سال تقریباً ستر ہزار افراد کو جو ساری دنیا سے جنگ، مفلسی، سیاسی اختلاف اور مذہبی تشدد کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں، ریفیوجی سٹیٹس دیتا ہے اور اب رفاہی ادارے جن میں بیشتر کرسچین ہیں، صدر کے نام اس تعداد کو دس ہزار سے زیادہ کرنے کا کھلا خط لکھ رہے ہیں، اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ ان میں اکثریت کا وجود مذہبی ہے اور اندر آنے والے کئی لوگ پناہ گزینوں کے بھیس میں اسلامی اساس پرست بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکی اخبارات کی رپورٹوں کے مطابق پاکستان، ہندوستان، افغانستان، مصر، تونس، اریٹیریا، البانیہ، کوسووا اور دوسرے ملکوں کے کچھ لوگ مغربی یورپ میں آباد ہونے کی امید میں شامی پناہ گیروں کی بھیڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ شام میں جہاں سہ طرفہ جنگ جاری ہے، پندرہ لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ بشار الاسد کی آمریت کے خلاف جو اپوزیشن پیدا ہوئی امریکہ نے اس کی حمایت کی اور دونوں گروہوں میں جو خانہ جنگی جاری تھی اس پر داعش نے شب خون مارا۔ اب سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز حج پر داعش کو لتاڑ کر چوتھا فریق بن گئے ہیں۔
شام کی صورت حال سے اندازہ ہوا کہ سرد جنگ ابھی جاری ہے۔ مغرب کی قیادت بدستور امریکہ کر رہا ہے اور مشرق کی رہنمائی سوویت یونین کے سقوط کے بعد روس نے لے رکھی ہے۔ بڈھ بیر (پشاور) پر حالیہ افغان حملے سے جس میں29 افراد جاں بحق ہوئے، اس جنگ کی خاصی نشان دہی ہوئی ہے۔ یہ ہوائی اڈہ امریکہ نے تعمیر کیا تھا اور یہاں سے اڑ کر گیری پاورز، سوویت علاقے میں داخل ہوا تھا جسے خروشچیف کی فوجوں نے مار گرایا اور کچھ عرصے کے بعد یہ ہوائی مستقر بھی پاک فضائیہ کے حوالے کر دیا گیا جو اسے رہائش گاہ کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ روس اور ایران، شام کی حمایت کر رہے ہیں اور روسیوں نے مبینہ طور پر وہاں فوج اور جنگی ساز و سامان بھی اتار دیا ہے جس پر امریکہ نوحہ کناں ہے۔
امریکی مسلمانوں کی دو سب سے بڑی تنظیمیں 'اثنا اور اکنا‘ جو بڑی حد تک مہاجروں کی جماعتیں ہیں، اسلامی دنیا کے اس المیے پر خاموش ہیں مگر ریفیوجی کونسل یو ایس اے جو امریکی چرچوں کی تنظیم ہے، شامی پناہ گزینوں کے پہلے ریلے کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چرچ کے لوگ 'رضاکا رانہ طور پر‘ نو واردوں کو سوشل سکیورٹی نمبر حاصل کرنے، انہیں روزگار کی درخواستیں دینے اور ان کے لئے انگریزی زبان کی کلاسوں کا انتظام کرنے میں مدد دیںگے۔ بیشتر پناہ گزین' ڈیٹریٹ (مشی گن) ، سین ڈیگو (کیلی فورنیا) اور ایسی دوسری ریاستوں کا جہاں پہلے سے شام سے آنے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں رخ کریں گے۔ باقی، ممکن ہے قومی دارالحکومت اور ملحقہ میری لینڈ اور ورجینیا میں بیٹھ جائیں۔
کچھ علاقوں میں مختلف وجوہ کی بنا پرنئے آبادکاروں کی مزاحمت کے آثار ہیں۔ سرکاری حکام اور خیراتی اداروں کے عہدیدار کہہ رہے ہیں کہ مسیحی اقدار کو اجاگر کرکے وہ اس کا توڑ کریںگے۔ حُسن اتفاق سے پوپ فرانسس ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں اور وہ مائیگریشن کے زبردست حامی سمجھے جاتے ہیں۔ اس ملک کی تقریباً آدھی آبادی رومن کیتھولک ہے، وہ قدرتی طور پر پوپ کو اپنا روحانی باپ مانتی ہے اور باقی افراد بھی ان کا احترام کرتے ہیں۔ ایک چرچ لیڈر نے کہا: ہمارے اسقف اعظم ''مشترکہ انسانیت‘‘ پر اصرار کرتے ہیں اور ان کا فرمانا ہمارے سر آنکھوں پر ہے۔کچھ مہاجر مذہب تبدیل کر لیں گے اور متعلقہ چرچ جانا شروع کر دیںگے۔ فائدہ بالآخر مسیحیت کا ہوگا۔ نام نہاد اسلامی خلافت کو یہ احساس ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے(UNHCR) نے اٹھارہ سو لوگوں کو امریکہ میں آبادکاری کے اہل قرار دیا تھا۔ اوباما حکومت نے ان میں سے سولہ سو کا انتخاب کیا ہے۔ بیشتر پناہ گیر ہوائی جہازوں میں بھرکر امریکہ لائے جائیںگے۔ اس وقت وہ اردن، لبنان اور ترکی میں پڑے ہیں۔ نو بڑی تنظیموں نے وائٹ ہاؤس کے نام اپنے کھلے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ، موجودہ مالی سال کے دوران دو لاکھ پناہ گزین قبول کرے جن میں ایک لاکھ شامی ہوں۔ امریکہ شروع ہی سے مذہبی اور اقتصادی تارکین وطن کی سرزمیں ہے۔محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان کہتے ہیں کہ آبادکاری کی مد میں موجودہ مالی سال کے لئے ایک اعشاریہ ایک بلین ڈالر رکھے گئے ہیں جو ستر ہزار لوگوں کی ضروریات کے لئے کافی ہوںگے۔ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پینتالیس ہزار شامی پہلے سے امریکہ میں آباد ہیں۔
ابتدائی برسوں میں کرسچین شامی امریکہ میں وارد ہوئے تھے مگر اب زیادہ تر مسلم مہاجر خانہ جنگی سے بھاگ رہے ہیں۔ جو ادارے تازہ واردوں کی میزبانی کریں گے ان میں واشنگٹن ڈی سی، شمالی ورجینیا اور بالٹی مورکی کیتھولک تنظیمیں شامل ہیں۔ امریکی اخبارات کی اطلاعات کے مطابق جرمنی جو شروع میں پناہ گزین قبول کرنے میں سب سے آگے تھا، شامیوں میں عراقیوں،افغانیوں اور پاکستانیوں کو شامل ہوتے دیکھ کر کانوں کو ہاتھ لگا رہا ہے۔ مہاجروں اور پناہ کے متلا شیوں کے ایک بحربے کراں کا سامنا کرتے اب وہ یہ کہہ رہا ہے کہ آسٹریا کے ساتھ اپنے بارڈرکی پابندیاں سخت کر دے گا، عارضی طور پر سرحد تک ریلوے سروس معطل کرے گا اور ان سڑکوں کی دیکھ بھال تیزتر کردے گا جن پر پیدل سفر کرتے ہوئے ہزاروں پناہ گیر برلن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ سب مہاجر دنیائے اسلام سے آئے ہیں اور مغربی یورپ میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ خود کشی اور ترکِ وطن کے درمیان کوئی ایسا مرحلہ ہونا چاہیے جہاں انسان اپنی جان اور عزت بچا سکے۔ چند سال پہلے مجھے گوئٹے مالہ سے ایک خط ملا جس سے پتا چلا کہ پاکستانی، جنوبی امریکہ کے اس غریب ملک میں بھی پہنچے ہوئے ہیں۔گزشتہ سال آذربائیجان میں بہت سے پاکستانیوں کی موجودگی کا علم ہوا جو میڈیکل کی تعلیم کے لئے اس ملک میں داخل ہوئے تھے۔ جب مانگ بڑھے گی تو رسد میں بھی اضافہ ہوگا۔ سنتے ہیں کہ اسلام آباد، لاہور اورکراچی جیسے شہروں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے
امریکہ آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے جو انسانی سمگلروں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔ مبینہ طور پر ایک سمگلر نے ایک امیدوار سے پچپن ہزار ڈالر وصول کئے اور ویزا ملنے پر مزید چار ہزار ڈالر کی وصولی کی امید ظاہر کی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو اس سمگلر اور اس گنجے چالیس سالہ شخص میں کوئی فرق نہیں جس نے شام سے ترکی میں گھس کر ایک فرسودہ سے ہوٹل میں دکان کھولی ہے اور شامی مہاجروں سے فی کس تیرہ سو ڈالر لیتا ہے ما سوا اس کے کہ وہ سستا ہے۔ ربرکی ایک ڈسپوزیبل کشتی میں ازمیر کے ساحل سے یونان تک سفر کراتا ہے اور اس کی ناپائدار کشتی بعض اوقات منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے مسافروں سمیت ڈوب جاتی ہے۔
کوئی فرد آسانی سے اپنا وطن نہیں چھوڑتا۔ مہاجر بڈاپسٹ اور مشرقی یورپ کے دوسرے شہروں میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ ترکی میں نہیں رکیں گے کیونکہ کسی زمانے میں وہ یورپ کا مرد بیمار کہلاتا رہا ہے۔ وہ ازمیر سے پینتالیس منٹ دور یونان میں بھی نہیں ٹھہریں گے کیونکہ وہ یورپی ملک ہونے کے باوجود بد ترین مالی بحران کا شکار ہے۔ ان کی پہلی ترجیح شمالی امریکہ اور مغربی یورپ ہوگی جہاں چلنے پھرنے اور ووٹ دینے کی آزادی ہے، جہاں سرحدیں معدوم یا برائے نام ہیں اور جہاں ایک سے دوسرے ملک منتقل ہونے کے لئے ویزے کی درخواست نہیں دینی پڑتی۔ پاکستان سے اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ آنے کے خواہش مند نوجوانوں کو مشورہ یہ ہے کہ اگر وہ واقعی تعلیم کی غرض سے امریکہ کا ارادہ رکھتے ہیں تو پچپن ہزار ڈالر سمگلر کو مت دیں۔ قریبی امریکن سنٹر یا قونصل خانے جائیں، ان کے فارم بھریں، تعلیمی ویزا لیں، امریکی درسگاہیں کاروباری بنیادوں پر کام کرتی ہیں۔ وہ چشم براہ ہیں۔ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خرید کر امریکہ آئیں۔آپ پڑھ لکھ کر یہاں ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ صدر اوباما غیر ملکی ذہنوںکو امریکہ میں رکھنے کے حامی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں