ایک بار پھر امریکی ایجنڈے پر

وزیر اعظم نواز شریف جو 22 اکتوبرکو واشنگٹن پہنچیں گے، وائٹ ہاؤس ان کے ساتھ مری مذاکرات کی بحالی کے علاوہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر پابندیوں کے بارے میں گفتگو کا ارادہ ظاہر کر رہا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اپنے ایٹمی اسلحے پر نئی حدود قبول کر لے تو امریکہ کے نزدیک یہ ایک سفارتی کارنامہ ہو گا۔ ایسا کوئی معاہدہ شاید آخر کار ویسے سودے کی راہ نکالے جو2005 ء میں بھارت کے ساتھ ایک سویلین نوکلیئر ڈیل کا باعث بنا تھا۔ نواز شریف اور صدر اوباما کے مابین یہ نیوکلیائی مکالمہ بطور خا ص اہم ہے کیونکہ اس سے امریکی حکام کو دنیا کے انتہائی خطرناک خطوں میں سے ایک کے حفاظتی مسائل سے عہدہ برآ ہونے کا موقع ملے گا۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ پاکستان کو اپنے جوہری ہتھیار اور ان کے ڈیلیوری سسٹم اس حد تک رکھنے کے لئے کہا گیا جتنا کہ بھارت کی جانب سے ایٹمی خطرے سے نمٹنے کے لئے ضروری ہوں۔ ایسے سمجھوتے کے عوض امریکہ ہو سکتا ہے کہ بالآخر اس استثنیٰ کی حمایت کرے جو جوہری ساز و سامان بیچنے والے48 ملکوں کا گروپ پاکستان کو دے گا۔ امریکہ اس گروپ کا ایک با اثر رکن ہے اور اسی کے کہنے پراس گروپ نے بھارت کو اپنے قو ائد و ضوابط سے مستثنیٰ کیا تھا جو ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ کی روک تھام کے عالمی معاہدے NPT سے بچ کر اپنا کام کرنے وا لے ملکوں پر پابندی لگاتے ہیں۔ اس معا ہدے کی رو سے بھارت کو جزوی طور پر نام نہاد نیوکلیئر کلب میں داخل ہونے کا اذن ملا اور اس نے اپنے سویلین ایٹمی منصوبے کے لئے (اقوام متحدہ کی) اٹامک انرجی ایجنسی کے تحفظات حاصل کر نے کی درخواست کی۔
پاکستان، ایسے تحفظات حاصل کر نے میں امریکہ کی امداد کا طلب گار رہا ہے مگر یہ امکان نہیں کہ وہ اپنے فوجی ایٹمی پروگرام پر کوئی قد غن قبول کرے گا۔ مثال کے طور پر شاید وہ اپنے میزائل نصب کرنے میں وہ حدود منظور نہ کرے جو طے کی جائیں۔ وہ اپنے جوہری منصوبے کو اللہ کا انعام سمجھتا ہے اور اسے بھارتی عزائم کا توڑ خیال کرتا ہے۔ اس لئے امریکی ذرائع کے مطابق یہ مذاکرات سست اور مشکل ہوں گے اور ابھی یہ واضح نہیں کہ اسلام آباد یہ پابندیاں جو مطلوب ہیں قبول کرے گا، مگر سوال خاموشی سے زیر بحث ہے۔کوئی رکاوٹ توڑ کامیابی اس جمود کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے جو پاکستان کے جوہری منصوبے پر 1980ء کے وسط سے چلا آ رہا ہے، جب امریکہ نے پہلی بار اس پروگرام کی بھنک پائی تھی بالخصوص 1998ء کے بعد جب پاکستان نے چاغی (بلوچستان) میں اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔ یہ دھماکہ بلکہ دھماکے میاں نواز شریف کی رضا مندی سے کئے گئے تھے جو اس وقت بھی ملک کے وزیر اعظم تھے۔
پچھلے ہفتے جب پاک فوج کے ترجمان، افغان حکومت کے اس الزام کی تردید کر رہے تھے کہ قندوز کے ہسپتال پر امریکی بمباری میں پاکستان کا ہاتھ تھا تو امریکی جنرل جان کیمپبل جو افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے انچارج ہیں کانگرس کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ امریکی فوج کی''غلطی‘‘ تھی۔ ہم کبھی جان بوجھ کر ایک محفوظ طبی ادارے کو نشانہ نہیں بنائیں گے‘‘۔ ہسپتال پر مسلح ہیلی کاپٹر کے اس حملے میں بائیس مریض اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔ Doctors Without Bordersنے جو یہ ہسپتال چلاتی تھی اور جس کے بارہ رضاکار ڈاکٹر مارے گئے، اسے''جنگی جرائم‘‘ کا ارتکاب قرار دیا ہے اور امریکہ کے خلاف اقوام متحدہ میں مقدمہ چلانے کی دھمکی دی ہے۔
اس سے پہلے محکمہ دفاع ( پنٹاگان) نے اس غلطی کو تسلیم کیا تھا۔ جنرل کیمپبل نے اپنے بیان میں کہا کہ ''امریکی فوج نے افغان فوج کی ایک درخواست کا جواب دیا جسے طالبان کے حملے کا سامنا تھا۔ ذمہ داری بہر حال امریکہ کی ہے‘‘۔ یہ حالیہ تاریخ میں ایک سویلین نشانے پر انتہائی تباہ کن کارروائی ہے۔ جنرل نے کہا: ''اس واقعہ میں ملوث تمام افراد کا محاسبہ ہوگا۔ امریکی افواج تو شہر کو واپس لینے میں افغان فوج کی امداد کر رہی تھیں‘‘۔ انہوں نے محاسبے کا اوقات نامہ دینے سے انکار کیا مگر ہفتے کو ہسپتال کے ہنگامی اور نازک اہمیت کے وارڈوں پرAC-130 گن شپ کی بار باربمباری کے بارے میں کئی سوال جواب طلب ہیں۔ مثلاً امریکی ہوا باز ایک اور عمارت کو نشانہ بنانا چاہتے تھے مگر غلطی سے ہسپتال پر ٹوٹ پڑے، یہ جانے بغیر کہ علاج معالجے کی ایک جگہ ان کے نشانے پر ہے۔
فرانس کی موقر تنظیم نے اپنے ہسپتال پر حملے کو ارادے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ ڈاکٹروں کی بین الا قوامی تنظیم کے صدر نے کہا: ''اس حملے کو جنگ کا اجتماعی شاخسانہ یا محض ایک غلطی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور افغانستان کو ہسپتال کے کوائف سے مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا ہے‘‘۔ امریکی جنرل نے کہا کہ حملے کا اختیار دیا گیا تھا۔ یہ پنٹا گان کے ابتدائی بیانات سے مختلف ہے جو کہتے تھے کہ امریکی فوجوں نے جنہیں طالبان کا زمینی حملہ درپیش تھا اپنے دفاع میں یہ کارروائی کی۔ صدر اوباما نے واقعہ کے پانچ دن بعد جنیوا میں تنظیم کی صدر جو این لیو کو فون کیا اور ان سے معافی مانگی، یہ کہہ کر کہ ہسپتال پر حملہ ''ایک حادثہ‘‘ تھا‘ ڈی ڈبلیو بی کے عہدیدار مسٹر اوباما کی معافی کو رد کر رہے ہیں اور مصر ہیں کہ ایک غیر جانبدار بین الا قوامی ٹیم اس واقعہ کی تفتیش کرے جس کے لئے واشنگٹن تیار نہیں۔ اسی روز مسٹر اوباما نے افغان صدر مشتاق غنی کو بھی فون کیا اور جانی نقصان پر ان سے تعزیت کی۔ انہی کی حکومت نے پاکستان کو اس واقعہ کا ذمہ دار گردانا تھا۔
افغانستان میں بین الا قوامی ہسپتال پر بمباری ایک ایسے وقت ہوئی جب امریکہ ہمسایہ نیوکلیائی پاکستان کو دبانا چاہتا ہے۔ اس کی تازہ مثال وہ پریس کانفرنس ہے جو امریکہ کے جان کیری اور بھارت کی سشما سوراج نے مشترکہ طور پر نیو یارک میں کی۔ امریکہ، پاکستان کو افغان حکومت اور اس کے باغی طالبان کے مابین ایک رابطہ سمجھتا ہے۔ اسلام آباد میں امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار گزشتہ چار سال سے خفیہ امن مذاکرات کر رہے ہیں۔ چین جسے پاکستان میں اقتصادی راہداری کی تکمیل کے لئے ایک پُر امن جنوبی ایشیا درکار ہے ان مذ اکرات کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے ایک رکن نے کہا: ''بیجنگ کی شمولیت ایک نیا ڈائنیمک ہے‘‘۔ اور ایک نظیر ہے کہ امریکی مفادات کہاں کہاں چین سے ملتے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان میں پہلا مذاکرہ چین میں ہی ہوا تھا جہاں پاکستان اور امریکہ مبصر تھے۔ دوسرا مری میں ہوا جس میں نیو یا رک ٹائمز کے بقول ''طرفین نے اتفاق کیا کہ وہ باقاعدہ میٹنگوں میں شریک ہو کر جھگڑے کا پُر امن خاتمہ چاہیں گے‘‘۔ تیسری میٹنگ پھر مری میں ہونا تھی مگر افغانستان کی جانب سے طالبان کے لیڈر ملا محمد عمر کی وفات کی دو سال پرانی خبر لیک ہو نے کی وجہ سے تار پیڈو ہو گئی۔ امریکہ کے نزدیک اختر محمد منصور اب طالبان کا لیڈر ہے اور اسی کی ہدایت پر یہ حملہ کیا گیا ہے جو اس دھڑے پر اپنے کنٹرول کو مستحکم کرنے کا یقین رکھتا ہے۔
امریکہ نے چار سال پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان سے نکلنے کا واحد راستہ، جنگ کا ایک سفارتی تصفیہ ہے جس میں طالبان اور ''بعض اوقات ان کے مربی‘‘ پاکستانی شامل ہوں۔ محکمہ خارجہ ایک عرصے سے اس مقصد کے تحت امن مذاکرات میں مصروف ہے اور طا لبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان کے پہلے بڑے شہر اور اقتصادیات کے مرکز پر ان کی یلغار سے ثابت ہو تا ہے کہ امن مذاکرات بے نتیجہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں