ری پبلکن پارٹی نے کانگرس سے ڈیموکریٹک صدر بارک اوباما کے الوداعی خطاب کا جواب دینے کے لئے نکی ہیلی کو منتخب کیا تو ریاست ساؤتھ کیرولائنا کی اس گورنر نے نہ صرف صدر کی تقریر کا تنقیدی جواب دیا بلکہ نقل وطن کے خلاف اپنی ہی پارٹی کی صدارتی مہم میں صف اول کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ کو بھی رگید ڈالا۔ میں اسے امرتسر والوں کا موقف کہوں گا۔ مسز ہیلی کا پیدائشی نام نمراتا کور رندھاوا ہے۔ وہ بھارتی پنجاب کے ضلع امرتسر کے ایک گاؤں سے امریکہ آنے والے اجیت سنگھ رندھاوا اور راج کور کے ہاں بیم برگ ساؤتھ کیرولائنا میں بیس جنوری 1972ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ گورنر لوزی آنا بابی جندال‘ جن کے ایک رشتے دار لوہے کے بھارتی بیوپاری نوین جندال کا نام وزیر اعظم نواز شریف کی نواسی کی شادی کے مہمانوں میں بھی آیا‘ کے بعد وہ ایک امریکی ریاست کی دوسری انڈین چیف ایگزیکٹو ہیں۔ نکی ہیلی کے چنائو سے ایک بار پھر ان افواہوں نے زور پکڑا ہے کہ نومبر میں ریپبلکن ٹکٹ پر دوسرا نام انہی کا ہو گا۔ جب بارک اوباما سے مٹ رامنی کا ٹاکرا ہوا تھا تو اس وقت بھی یہ افواہ سنی گئی تھی کہ ری پبلکن نائب صدر مسز ہیلی ہوں گی۔ ان کے منصب کی میعاد 2019ء میں مکمل ہو گی۔
گورنر ہیلی نے اپنے دارالحکومت کولمبیا سے صدر کے خطاب کا جواب دیتے ہوئے اپنی پارٹی کے امیدوار ارب پتی قمار باز ڈونلڈ ٹرمپ‘ سینیٹر ٹیڈ کروز اور نامور سیاہ فام نیورو سرجن بن کارسن کا نام تو نہیں لیا‘ مگر مسلمانوں کے خلاف ان کی ملتی جلتی تجاویز کو رد کر دیا۔ مسٹر ٹرمپ اپنی تجویز انتخابی مہم میں بار بار دہرا چکے ہیں کہ کیلے فورنیا کے سانحے کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ ایسی متنازع تجاویز سے ری پبلکن رائے دہندگان میں انہیں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ امریکہ کے مغربی ساحل پر سینٹ برناڈینو میں رونما ہونے والے سانحہ میں‘ جو پیرس میں ایک سو تیس افراد کی ہلاکت کے بعد رونما ہوا اور جس میں ایک پاکستانی میاں بیوی ملوث پائے گئے‘ سولہ افراد مارے گئے تھے۔ نکی ہیلی نے کہا: ناراض ترین آوازوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے۔ ''میں ہندوستانی آبادکاروں کی قابل صد افتخار بیٹی ہوں جو ہر روز میرے بھائیوں اور بہن کو اور مجھے یاد دلاتے تھے کہ اس ملک میں رہ کر ہم کتنے خوش قسمت نکلے‘‘۔ انڈین امریکن خاتون بولیں: ''میری کہانی لاکھوں امریکیوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ تارکین وطن اپنے خوابوں کی تکمیل کے لئے ہمارے (اس ملک کے) ساحلوں پر کئی نسلوں سے اترتے رہے ہیں‘‘۔ یہ امیگرینٹس کا وطن ہے۔ تینتالیس میں سے سات صدروں کے والد یا والدہ کسی دوسرے ملک سے آئے تھے۔ ان میں موجودہ صدر کے والد بارک حسین اوباما سینئر بھی شامل ہیں‘ جو کینیا‘ افریقہ سے آئے تھے اور جن کے حوالے سے آج بھی صدر پر مسلمان ہونے کا الزام لگتا ہے۔ دور کیوں جائیے ری پبلکن ٹکٹ کے لئے زور آزمانے والے ایک امیدوار کے والدین کیوبا سے آئے تھے اور دوسرے کی اہلیت مشکوک ہے‘ اور یہ سوال بھی مسٹر ٹرمپ نے اٹھایا ہے‘ جو کہتے ہیں کہ سینیٹر ٹیڈ کروز تو کینیڈا میں پیدا ہوئے تھے۔ (ان کی والدہ امریکی شہری تھیں) خود مسٹر ٹرمپ کے ماں باپ سابق سوویت یونین سے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ مجھے تعمیرات کے کام کا تجربہ ہے‘ میں امریکہ اور میکسیکو کی طویل سرحد پر دیوار بنا دوں گا۔
ری پبلکن پارٹی کے بعض حلقے ہیلی کے بیان کو پارٹی میں خلفشار اجاگر کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ وہ ان کی تقریر کو اندوہناک اور جناتی کہتے ہیں‘ مگر خاتون کہتی ہیں کہ میں نے جو کہنا تھا کہ دیا۔ بعد میں انہوں نے نام بھی لیا اور کہا کہ اس میں اشارہ پارٹی کے جن عناصر کی جانب تھا ان میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں۔مسٹر ٹرمپ نے نکی ہیلی کے ''امیگریشن سٹیٹس‘‘ پر حملے شروع کر دیے ہیں مگر کئی مبصر خاتون کو پارٹی میں ابھرتا ہوا ستارہ کہہ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کی قیادت نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو سے اندر آنے والوں‘ صحافیوں اور تارکین کی توہین کو پسند نہیں کیا‘ اور اس نے جان بوجھ کر نکی ہیلی کو ان کے مقابل لاکھڑے کیا ہے۔ اگر اس نے کروز کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو ٹکٹ پر دوسری امیدوار ہیلی ہوں گی‘ اور یہ ٹکٹ‘ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری راڈم کلنٹن یا سینیٹر برنی سینڈرز میں سے کسی ایک کا مقابلہ کرے گا۔ سینڈرز کا کہنا ہے کہ یورپ کی طرح امریکہ بھی ڈیموکریٹک سوشلزم قبول کر رہا ہے جس کے وہ علم بردار ہیں۔
ہیلی نے ٹرمپ اور دوسرے پارٹی لیڈروں پر نکتہ چینی کے جوش میں اپنی جماعت کے موقف سے زیادہ انحراف نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: ''اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی سرحدوں کو کھلا چھوڑ دیں۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ہم تارکین وطن کو غیر قانونی طور پر یہاں آنے کی اجازت دینے کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے‘ اور دہشت گردی کے اس دور میں تو ہمیں ان پناہ گزینوں کو اندر آنے کی اجازت ہرگز نہیں دینی چاہیے‘ جن کے ارادوں کا پیشگی تعین نہ کیا جا سکتا ہو‘‘۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پارٹی لیڈر ایسی تقریریں پڑھتے ہیں مگر ان میں کوئی رد و بدل نہیں کرتے۔ وہ آزادیء تحریر و تقریر کا احترام کرتے ہیں اور اس آئینی دفعہ کی آڑ میں اپنے مطلب کے خیالات آگے بڑھاتے ہیں۔
نکی ہیلی‘ نوعمری میں سیاست میں حصہ لینے لگی تھیں۔کاروباری شخصیت مائیکل ہیلی سے شادی بیپٹسٹ چرچ میں چھ ستمبر 1996ء کو ہوئی‘ گویا اسی دن باقاعدہ طور پر انہوں نے مسیحیت قبول کی؛ تاہم انہوں نے اپنے سابق مذہب کے مطابق بھی الگ رسومات ادا کیں۔ ان دونوں کے دو بچے ہیں جو پرائمری سکول جاتے ہیں۔ ان کے رشتے دار اب بھی سکھ ہیں۔ دو سال پہلے وہ جالندھر گئیں اور پنجابی لباس شلوار کرتا اور کڑھا ہوا دوپٹہ اوڑھ کر اور زیورات میں جھومر اور کنگن پہن کرسکھوں کی ایک شادی میں شریک ہوئیں۔ ایک ری پبلکن تجزیہ کار نے لکھا: ''ٹرمپ کو چاہیے کہ وہ ہیلی کو ڈی پورٹ کر دیں‘‘۔ مسز ہیلی نے ریاست کے لوگوں کے عمومی رجحان کے پیش نظر سیاست میں دائیں بازو کی قدامت پسندی اختیار کی اور پہلی بار کاؤنٹی کے ایوان تجارت کے بورڈ کی رکن چنی گئیں۔ جب وہ گورنر کے عہدے کے لئے کھڑی ہوئیں تو لامحالہ انہیں بھی الزام تراشی کی سیاست کا سامنا ہوا۔ وہ ایک امریکی درس گاہ سے سائنس گریجوایٹ تھیں مگر ایک مخالف نے انہیں ''بْھس بھرا دماغ‘‘ کہا۔ ایک شخص نے ان کی عزت پر حملے کئے اور ایک نے کہا کہ وہ اپنا سکھ مت چھپانے کے لئے مسیحی بنی ہیں۔ ان کے والد زرعی کالج امرتسر میں پڑھاتے تھے‘ جب انہیں کینیڈا کا ایک تعلیمی وظیفہ ملا۔ وہ پی ایچ ڈی کرکے امریکہ منتقل ہوئے۔ ان کی والدہ ایک کامیاب بزنس اونر تھیں۔ ان کے دو بھائی ہیں۔ منی جو خلیج کی پہلی جنگ ''ڈیزرٹ سٹارم‘‘ میں کام کرنے کے بعد یو ایس آرمی کیمیکل کور سے ریٹائر ہوئے اور چرن جو ایک ویب ڈیزائنر ہیں‘ ان کی ایک بہن بھی ہیں جن کا نام سمرن ہے جو ریڈیو ہوسٹ اور فیشن ڈیزائنر ہیں اور سنگاپور میں پیدا ہوئی تھیں۔ نکی ہیلی کئی بار ریاستی اسمبلی کی رکن چنی گئیں۔ انہیں ملک گیر شہرت گزشتہ سال میسر آ ئی جب ان کی ریاست کے تاریخی شہر چارلسٹن کے ایک چرچ پر دہشت پرست تنظیم KKK کے ایک رکن نے چھ عورتوں اور تین مردوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس رکن نے پیشگی یہ اعلان کیا تھا کہ آج وہ کالے لوگوں کو مارے گا اور ملک میں ایک نسلی جنگ شروع کرے گا۔ گورنر ہیلی نے اس ریاکاری اور لاقانونیت کے خلاف پرچم اٹھایا اور حملہ آور کو سزا دلوائی۔ دو ماہ بعد ساؤتھ کیرولائنا کی اسمبلی نے تین کے مقابلے میں چھتیس ووٹوں سے گورنمنٹ ہائوس سے کنفیڈریسی کا جھنڈا ہٹانے کا قانون پاس کیا‘ تو ہیلی نے بل پر دستخط کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو چیز ریاست کے لوگوں کو تقسیم کرتی ہے اسے ہٹا دینا ہی بہتر ہے۔ خانہ جنگی کا آغاز اسی ریاست سے ہوا تھا۔ گورنر بولیں: ''یہ پرچم گو ہمارے ماضی کا لازمی جُزوہے مگر ہماری عظیم ریاست کے مستقبل کی نمائندگی نہیں کرتا‘‘۔