سرمایہ کاری‘ ساحل سے دْور

پاناما پیپرز میں گو دنیا بھر کے ہزاروں افراد کا ذکر ہے مگر پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اسے ایک گھریلو معاملہ بنا لیا ہے‘ اور بظاہر اپوزیشن پر الزام لگایا ہے کہ اس نے ''سیاسی مقاصد‘‘ کے تحت اس معاملے کی آڑ میں انہیں اور ان کی اولاد کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا: ''میں جانتا ہوں کہ اس کے پیچھے کون ہے‘‘۔
آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے ایسے ہی حالات اور عوامی دباؤ کی تاب نہ لا کر منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا‘ جبکہ ہمسایہ ملک بھارت میں چھان بین کے لئے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے‘ اگرچہ وہاں چند دولت مند اداکاروں کے نام لئے گئے تھے۔ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور دوسرے کئی ملکوں میں‘ جن کے شہری آف شور کمپنیاں بنانے یا ان میں سرمایہ لگانے میں ملوث بتائے گئے‘ تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔ یہاں واشنگٹن میں صدر اوباما نے کہا کہ پانامہ سے آنے والے ڈیٹا کے اس بڑے ذخیرہ نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ ٹیکس سے بچاؤ‘ ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے۔ اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر نے مزید کہا: اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سب قانون توڑ رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قوانین اس بْری طرح بنائے گئے ہیں کہ وہ لوگ‘ جن کے پاس وکیل کرنے کو بہت سا پیسہ ہے‘ اپنی ان ذمہ داریوں سے نکل سکتے ہیں جس کا عام شہری پاس کرتے ہیں۔ دنیا میں ٹیکس کا قانونی اور ناجائز بچاؤ‘ شاید اربوں کھربوں ڈالر تک پہنچتا ہو۔ یہ ایک ایسا بڑا مسئلہ ہے جو بار بار عالمی رہنماؤں کے اجتماعات میں اٹھایا گیا ہے۔ صدر کے اس بیان کے بعد اوباما انتظامیہ کے مختلف محکموں نے اپنے قواعد پر نظر ثانی شروع کر دی ہے‘ جس کی بدولت ڈبلن کی ایک کمپنی سے 160 بلین ڈالر کا ادغام منسوخ ہوا ہے‘ جو ایک نامور دوا ساز ادارہ ٹیکس بچانے کی نیت سے کرنا چاہتا تھا‘ اور اپنا ہیڈکوارٹر آئرلینڈ لے جانا چاہتا تھا۔ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور دوسرے ملکوں میں بھی اپنے قواعد و ضوابط پر ایسی ہی نظر ثانی ہو رہی ہے۔ کسی نے تردید کی ہے‘ کسی نے وضاحت اور کسی نے خاموشی۔ میاں صاحب کو بھی ان میں سے ایک راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا‘ مگر انہوں نے تو نام آنے سے پہلے ہی حسین نواز کو وضاحتی مشن پر لگا دیا‘ اور وہ اخبار نویسوں کے بعض سوالوں کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ پھر ایک ماہ میں دوسری بار ''قوم‘‘ سے خطاب کیا‘ اور اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود خاندان کی سوانح حیات سنا کر رخصت ہوئے‘ اور آخر میں اپنے چار وزیروں اور مشیروں کو اس کام کے لئے بھیجا۔ کہیں چور کی داڑھی میں تنکا نہ ہو؟
جزیرہ نما چھوٹے ملکوں یا خود مختار مقبوضات میں سرمایہ لگانا خلاف قانون نہیں‘ مگر پانامہ سٹی کی لا فرم‘ جو ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ دستاویزات ''لیک‘‘ کرنے کی ذمہ دار ہے‘ ایسی کمپنیوں اور افراد سے کاروباری تعلقات رکھتی ہے جو امریکہ اور بین الاقوامی تنظیموں کے زیر تعزیر ہیں۔ وسطی امریکہ کی لا فرم کم از کم 33 فرموں کے حصہ داروں‘ ڈائریکٹروں اور فائدہ اٹھانے والوں کا کام کرتی تھی جو امریکی محکمہ خزانہ‘ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی تعزیروں کی زد میں تھے۔ ہزاروں امریکی‘ ٹیکس سے قانونی یا غیر قانونی طور پر بچنے کے لئے اوقیانوس یا بحرالکاہل کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں اپنا پیسہ رکھتے ہیں‘ اور قانون میں سقم کی وجہ سے یہ سرمایہ داری امریکیوں کے معمولات میں سے ایک ہے۔ 
لا فرم موزائک فونسیکا Mossack Fonseca & Co بعض کمپنیوں کے بلیک لسٹ ہونے سے پہلے ان کے لئے کام کرتی تھی‘ مگر کچھ معاملات میں ان کے خلاف قانون قرار دیئے جانے کے بعد بھی یہ کام جاری رکھا۔ بی بی سی نے ایسی ایک کمپنی کی شناخت کی ہے‘ ڈی سی بی فنانس کے نام سے جسے ایک برطانوی شہری اور ایک شمالی کوریا والا مشترکہ طور پر کنٹرول کرتے تھے۔ لا فرم کا کہنا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر زیر تعزیر کمپنیوں یا افراد کے ساتھ کاروبار نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک کروڑ دس لاکھ دستاویزات اس لا فرم کے دفتر سے چوری ہوئیں‘ اور جرمن زبان میں شائع ہونے والے اخبار Sueddeutsche Zeitung کے حوالے کر دی گئیں۔ اخبار نے ایک بیان میں کہا کہ کئی ماہ قبل دستاویز اس کے سپرد کرنے والا کوئی whistleblower تھا‘ یعنی خبردار کرنے کے لئے سیٹی بجانے والا تھا۔ اخبار نے بجا طور پر اس شخص یا اشخاص کا نام نہیں لیا‘ مگر اس کے ڈیٹا میں کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا‘ بس سمندر پار کھاتوں کے مالکوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسی طرح جیسا کہ ٹیکسوں کی ایک اور جنت سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کے اکاونٹس کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ ان کے ناجائز ہونے کی ذمہ داری کھاتے دار کی شہریت پر عائد ہوتی ہے۔ روزنامے کے ہاتھ میں کام چونکہ اس کی استعداد سے بڑا تھا‘ اس لئے اس نے اشاعت یا عدم اشاعت کا کام 76 ملکوں کے تحقیقاتی صحافیوں کی تنظیم کے سپرد کر دیا‘ جس کا ایک رکن پاکستانی ہے۔ کیمن آئی لینڈ کے کھاتے داروں میں محمد نواز شریف کے خاندان کے علاوہ ان کے مخالف رحمن ملک اور ملک کی سرپرست بے نظیر بھٹو اور دوسرے دو سو پاکستانیوں کے نام بھی ہیں‘ مگر خاتون کے شوہر آصف علی زرداری کا نام نہیں۔ ان میں محمد نواز شریف کا نام بھی نہیں ہے‘ مگر ان کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی دو سو پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔ امریکیوں کے نام اس لئے نہیں لئے گئے کہ ان میں ابن سعود‘ لی پنگ‘ پوٹن اور شریف نہیں ہے۔ ناموں کی اشاعت ایک صحافیانہ صوابدید ہے۔
آئس لینڈ کے وزیر اعظم مفادات کے نزاع میں الگ ہوئے ہیں۔ پاناما پیپرز انکشاف کرتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کی بیوی نے اپنا پیسہ برطانوی ورجن آئی لینڈ کی ایک کمپنی میں لگا رکھا تھا‘ جبکہ ملک ایک مالی بحران میں مبتلا تھا۔ پائی ریٹ پارٹی ان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ یوکرین کے صدر اسی جزیرے میں واقع ایک فرم کے واحد حصے دار تھے۔ سپین کے فٹ بال کے کھلاڑی لیونل میسی کے خلاف ٹیکس میں بے قاعدگیاں روا رکھنے کی تفتیش ہو رہی ہے۔ ادا کار جیکی چین‘ جو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے‘ تال میل کرتے پائے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے حکمران سلمان بن عبدالعزیزالسعود کا ایک کردار ہے جس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ان کی کمپنیوں نے سنٹرل لندن میں گھر خریدے۔ وہ اسی جزیرے میں رجسٹرڈ ایک یاٹ (بحری جہاز) کے واحد مالک ہیں۔ سابق چینی صدر لی پنگ کی صاحبزادی اپنے ملک کی پاور انویسٹ منٹ کارپوریشن کی نائب صدر ہیں اور ''ملکہ بجلی‘‘ کہلاتی ہیں۔ تحقیقات کرنے والی صحافیوں کی تنظیم نے اس فہرست میں دو اور چینی شخصیتوں کا اضا فہ کیا ہے۔ وزیر اطلاعات کی بہو اور نائب وزیر اعظم کا داماد۔ سرگے رولدوگان‘ ولادیمیر پوٹن کے بچپن کے دوست اور روسی صدر کی سب سے بڑی صاحبزادی کے گاڈ فادر (ولی) ہیں۔ صحافیوں کی تنظیم کے مطابق وہ تین آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ پوٹن کے دو اور دوستوں کے نام اس لمبی فہرست میں آتے ہیں‘ جنہوں نے روس اور آف شور کمپنیوں کے ٹھیکوں سے اربوں ڈالر کمائے اور امریکی محکمہ خارجہ کی تعزیروں کی زد میں ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد‘ جن کا انتقال پانچ سال پہلے ہوا‘ حصص کی خرید و فروخت اور سرمایہ کاری سے اربوں ڈالر بنا رہے تھے۔ فٹ بال کی بین الاقوامی تنظیم فیفا کی اخلاقی کمیٹی کے رکن ہوان پیڈرو ڈامیانی‘ جو یورا گئے کے امیر ترین آدمیوں میں شمار ہوتے ہیں‘ پاناما کی لا فرم کے ایک بڑے گاہک بتائے جاتے ہیں۔
ایمزان اور سٹار بکس جیسی امریکی کمپنیوں نے بہتر ٹیکس مینجمنٹ کی غرض سے اپنے کھاتے ساحل سے دور رکھے ہوئے ہیں‘ اور ان کے بارے میں کسی بے قاعدگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ آف شور ٹیکس کی دنیا بہت دھندلی ہے۔ آف شور کمپنیاں ٹیکس بچانے کے لئے بنائی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ ہی آف شور ہولڈنگز‘ شیل کمپنیوں‘ خفیہ کھاتوں اور منی لانڈرنگ کا تصور ابھرتا ہے مگر پاناما پیپرز کو عمران خان کی ایجاد‘ پاجاما لیک یا شیطانی پیپرز یا ''میرے خلاف را کی ایک سازش کہنا‘‘ مضحکہ خیز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں