ادبی انجمنوں میں غیر ادبی موضوعات

کسی زمانے میں لاہور میں دو ادبی انجمنیں ہوا کرتی تھیں۔ حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنفین۔ حلقے میں سرکاری افسر الطاف گوہر‘ قیوم نظر اور شہرت بخاری سرگرم عمل تھے‘ اور انجمن میں احمد ندیم قاسمی‘ عارف عبدالمتین اور نازش کاشمیری جیسے غیر سرکاری اہل قلم کا پہرہ تھا۔ مشہور تھا کہ حلقہ 'ادب برائے ادب‘ کا قائل ہے‘ جبکہ انجمن 'ادب برائے زندگی‘ کی علم بردار تھی۔ گزشتہ نصف صدی میں جو لوگ پاکستان (اور ہندوستان) سے امریکہ منتقل ہوئے‘ ان میں سے ادبی ذوق رکھنے والے کچھ افراد نے لاس اینجلس‘ نیو یارک اور واشنگٹن کے علاقوں میں اپنی انجمنیں قائم کی ہیں‘ اور بعض نے ان کا نام حلقہ ارباب ذوق رکھا ہے۔ یہ ماہوار انجمنیں بوڑھوں اور بزرگوں کی ذہنی عیاشی کے اڈے ہیں‘ اگرچہ معدودے چند نوجوان بھی ان میں شریک ہوتے ہیں‘ جن میں اکثر اردو بولتے ہیں‘ مگر اردو لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ ان کی شرکت کا واحد مقصد غالباً یہ خیال ہے کہ کچھ یونیورسٹیاں زائد زبان سیکھنے والوں کو زائد نمبر دیتی ہیں۔ سب لوگ چائے کی ایک پیالی پی کر اور سموسے کھا کر‘ جو منتظمین کی جانب سے مہیا کئے جاتے ہیں‘ اپنی اپنی موٹروں میں بیٹھ کر گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت واشنگٹن کی دونوں تنظیموں میں نظر آتی ہے۔
امریکہ کی انجمنیں البتہ ایک خصوصیت کی حا مل ہیں۔ وہ نادانستہ طور پر ادب کو زندگی سے خلط ملط کرتی ہیں‘ مگر اس رجحان کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ حلقے میں پہلی بار جعفر امام نے ''گھریلو باغبانی‘‘ پر مضمون پڑھا تو کچھ سامعین نے اس پر ناک بھوں چڑھائی‘ مگر اکثریت نے بے حساب سوال پوچھے۔ انجمن ادب اردو (SOUL) نے ایک سے زیادہ دفعہ غیر ادبی مضامین کی حوصلہ افزائی کی مگر زبان کا اہتمام برقرار رکھا ہے۔ شروع میں اس نے پولیس افسر سارہ خان کو‘ جن کے والدین کراچی سے آئے تھے‘ مدعو کیا تو انہوں نے امریکہ میں پیدا ہونے کے باوصف اپنی محکمانہ ترقی کا پس منظر بتایا۔ اْردو زبان میں انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے ایک دکان پر ڈاکہ ڈالا‘ اور بہت سا مال لے کر بھاگ نکلا۔ بارش ہو رہی تھی۔ پانچ فٹ نو انچ کی پولیس افسر نے پولیس وین میں ڈاکو کا تعاقب کیا‘ اور اسے پکڑ لیا۔ ایک بار ہارٹ سرجن طارق شہاب نے دل کی بیماریوں پر لیکچر دیا۔ حال ہی میں وہ امراض قلب پر اظہار خیال کے لئے لوٹے‘ اور اس مرتبہ ان کی اداکارہ بیگم ریما نے 'اردو ادب میں دل کے تذکرے‘ کی باتیں کیں۔ یادش بخیر دل شاہ جہاں پوری کا یہ شعر بھی ان باتوں میں شامل تھا۔ ؎
دل جوڑنے چلے ۔ہو ہمارا مگر حضور
یہ بھی کہو کہ کون سے ٹکڑے کہاں کے ہیں
سول نے سامعین کو دانتوں کے امراض سے آگاہ کرنے کے لئے ایک ڈینٹسٹ کو مدعو کیا‘ اور ڈاکٹر فریدہ خٹک نے دانتوں کی صفائی اور صحت کو برقرار رکھنے کی باتیں کیں۔ حلقے کی دعوت پر ڈاکٹر عابدہ وقار رپلی نے حفظان صحت میں گھریلو ٹوٹکوں اور آئیورویدک مفردات کے کردار کا ذکر کیا۔ ایک صاحب نے اشاروں کنایوں میں صاحب صدر کی توجہ اس غیر ادبی موضوع کی طرف مبذول کرائی‘ تو صدر کو ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلانا پڑی کہ فاضل لیکچرر کے مقالے نے اس قدر سوال پیدا کئے کہ انہیں دو بار سٹیج پر آنا پڑا۔ یہ وہ موقع تھا جب صدر نے 'ادب برائے زندگی‘ کا ذکر کیا اور یہ دلیل لائے کہ ادب کو زندگی کا چہرہ نکھارنے اور سنوارنے کا ضروری کام کرنا چاہیے۔ امریکہ میں ادب کا ذوق رکھنے والے بیشتر لوگ اپنے اپنے مضمون میں تخصیص رکھتے ہیں۔ وقفے کے دوران معترضین میں سے ایک نے صدر کو الگ بلا کر بتایا کہ عابدہ تعلیم میں پی ایچ ڈی ہیں‘ اور وہ خود خوراک میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں۔ لیکچرر کا بیان جھوٹ ہے۔
جو لوگ ایلوپیتھک دواؤں کے ضمنی اثرات (Side Effects) سے تنگ اور ایک مہنگے طرز علاج سے زچ ہیں، ان کے نزدیک عابدہ کا لیکچر ایک نعمت تھا۔ مثلاً انہوں نے سامعین کو یاد دلایا: ''اپنے آبائواجداد کی طرز پر کھائیں تو اچھی صحت اور لمبی عمر پائیں کیونکہ ہمارے جسموں کو ان چیزوں کو ہضم کرنے کی ہزارہا سال سے عادت ہے۔ مثال: اورینٹل لوگ۔ دنیا میں سب سے زیادہ لمبی عمریں پانے والے اوکی ناوا، جاپان میں ہیں۔ چیزوں کو ان کی اصل حالت میں کھائیں۔ مثال: چِپچپا اور مہک والا سرسوں کا تیل‘ ناں کہ ری فائن کرکے حیاتیات سے محروم کیا گیا، پوری گندم‘ ناں کہ بھوسی اور سوجی نکالی ہوئی؛ چنانچہ نہ صرف خوراک ہمارے بزرگوں جیسی ہو بلکہ اسی حالت میں ہو جیسی فطرت نے بنائی۔ جو شے پروسس ہو چکی‘ وہ خراب ہے۔ مثالیں: چینی اور نمک۔ کھیوڑہ کی کان سے نکلا ہوا راک سالٹ بہترین نمک ہے۔ ہر تیل کی قوت برداشت مختلف ہوتی ہے‘ جو گرم ہو کر بھی سلامت رہتی ہے۔ زیتون کے تیل میں فرائی کبھی نہ کریں، اسے کچا ہی کھائیں۔ ناریل کے تیل کو جتنا چاہیں گرم کریں۔ پچاسی فی صد بیماریوں کا علاج آپ خود کر سکتے ہیں‘ کیونکہ ان کا تعلق معدے سے ہے۔ ہمارا باورچی خانہ بہترین فارمیسی ہے مگر وہاں بھی کم سے کم چار بڑے زہر ہیں۔ چینی، میدہ، بازاری نمک اور تیل جیسے کینولا۔ چونا ایک گرام‘ متعدد بیماریوں کا علاج ہے۔ جوڑوں کے درد میں خاص طور پر۔ اگر پتھری کی شکایت ہے یا تھی تو چونا نہ کھائیں۔ پان میں کتھا کبھی نہ لگائیں‘ یہ جانوروں کی کھالیں رنگنے کی چیز ہے، کھانے کی نہیں، نہ اس میں چھالیہ ڈالیں۔ ان دونوں سے منہ کی بیماریاں لگتی ہیں اور نظام انہضام بگڑتا ہے۔ سوتے میں پنڈلی اینٹھ جائے (چارلی ہورس) تو (ایپل سائیڈر) سرکہ ملیں۔ منہ اور بدن کی خشکی دور کرنے کے لیے چھوٹی الائچی چبا کر نگل لیں۔ ہچکی آئے تو کہیں لا الہ الااللہ تاکہ آخری ہچکی پر عادتاً کلمہ طیبہ ہی منہ سے نکلے‘‘۔
ریڈیو پاکستان لاہور کے ''بھائی جان ‘‘ ابوالحسن نغمی کہتے ہیں کہ امریکہ میں پہلی ادبی تنظیم‘ جس کا نام حلقہ ارباب ذوق رکھا گیا‘ عابدہ رپلی نے‘ جو نامور صحا فی وقار انبالوی مرحوم کی ہونہار صاحبزادی ہیں‘ اپنے گھر کے پاس فالز چرچ ورجینیا میں قائم کی۔ یہ شہری حقوق کے سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے اعزاز میں قائم ہونے والی اوّلیں سالانہ تعطیل کا دن تھا یعنی ہر سال کا تیسرا پیر‘ 1992ء سے۔ 
ڈاکٹر ستیہ پال آنند بھی‘ جو دو ہفتے قبل پاکستان میں تھے‘ محفل میں شریک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں پاؤں کے انگوٹھے کی تکلیف نے آن گھیرا تھا‘ مگر وہ یہ دورہ ملتوی نہیں کر سکتے تھے۔ اسلام آباد میں انہیں پتہ چلا کہ یہاں اینٹی بائیوٹک دوا بھی دو نمبر کی ملتی ہے۔ ان کے میزبان قاسم بوگھیو صاحب اٹھے‘ شفا ہسپتال گئے‘ اور اپنے اثر و رسوخ سے دوا لائے جس سے ان کو کچھ افاقہ ہوا۔ ڈاکٹر آنند نے صدر ممنون حسین کے ساتھ رات کا کھاناکھا یا‘ اور اردو کی ترویج و ترقی پر باتیں کیں۔ تین پاکستانی ''دیویاں‘‘ فاطمہ حسن‘ فہمیدہ ریاض اور زاہدہ حنا ان کے ساتھ تھیں۔ ان محفلوں میں غیر مسلم بھی شریک ہوتے ہیں۔ سرندر دیول نے اپنی کتاب A Moment in the Universe میں سے ایک نظم ''نروانا‘‘پڑھی اور ان کی اہلیہ دلیر آشنا دیول نے اس کا اردو ترجمہ سنایا۔
ڈاکٹر عامر علیگ نے بھارت کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد پر ایک مضمون پڑھا‘ جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک بار وہ کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لئے کراچی سے گزرے۔ ہوائی اڈے پر انہیں پروٹوکول دینے کے لئے کوئی سرکاری نمائندہ نہیں تھا اور انتظار (لے آؤٹ) طویل۔ انہوں نے ایک ٹیکسی منگوائی‘ قائد اعظم کے مزار پر گئے اور فاتحہ پڑھ کر واپس آ گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے آزادی کی تحریک میں گرما گرمی کے دوران آزاد کو انڈین نیشنل کانگرس کا شو بوائے کہا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں