رات کی سیاہی پر سحر کی روشنی کا غلبہ

سیاہ فاموں کا عجائب گھر کھلنے سے امریکی سیاہ فام عجب مخمصے کی حالت میں ہیں۔ ایک طرف غلاموں کی شکل میں اسلام کا ظہور ہے تو دوسری جانب ایک رنگدار کے صدر منتخب ہونے کا واقعہ۔ اس دوران ملک میں نسلی تعصب زوروں پر ہے اور مذہب کے نام پر دہشت گردی بھی جاری ہے۔ اس سال پولیس کے ہاتھوں 850 سے زیادہ کالے مارے گئے اور سال ابھی ختم نہیں ہوا۔ یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ پولیس کے ہاتھوں ہونے والی ہر ہلاکت خلاف قانون ہے‘ مگر بیشتر معاملات میں مظلوموں نے ہاتھ اوپر اٹھائے تھے‘ پناہ گاہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی یا وہ نہتے تھے۔
نیشنل میوزیم آف افریقن امریکن ہسٹری اینڈ کلچر‘ سمتھ سونین کے عجائب گھروں‘ آرٹ گیلریوں اور ایک چڑیا گھر میں اضافہ ہے‘ جو واشنگٹن کی مفت کشش میں شامل ہیں۔ بارک اوباما اور خاتون اول مشل افتتاح میں شریک تھے۔ 2003ء میں جب صدر بش نے اس میوزیم کی بنیاد رکھی تو اس کے پاس اپنا کوئی شہ پارہ نہ تھا‘ مگر آج چالیس ہزار اشیا ہیں‘ جن میں سے تین ہزار نمائش کے لئے پیش کی گئی ہیں۔ ان میں الیجا محمد کا قران پاک بھی ہے۔ الیجا نے پہلی بار سیاہ فام امریکیوں کو منظم کیا۔ انہیں اسلام کی تعلیم دی‘ غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی تلقین کی اورNation of Islamکی شکل دی۔ ان کے فرزند وارث دین محمد نے صراط مستقیم اختیار کیا اور ان کے معاصر مالکم ایکس نے محمد علی اور کریم عبدالجبار جیسے شہرہ آفاق کھلاڑی تیار کئے۔ سیاہ فاموں کے ایک گروہ کا لیڈر لوئس فرخان بھی انہی کی تعلیمات کا ثمر ہے‘ جس سے امریکی حکومت تھرتھر کانپتی ہے۔ سیاہ فاموں کی کرسچین شاخ نے مارٹن لو تھر کنگ جونیئر‘ سپریم کورٹ کے جج تھر گڈ مارشل‘ گلوکار جیسی جیکسن اور ''دن کے ٹیلی وژن کی ملکہ‘‘ اوپرا ونفری کو جنم دیا ہے۔ اب وہ آبادی کے تقریباً تیس فیصد کے برابر ہیں۔ امریکی تاریخ ان کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ 1776ء میں بنا۔ ''اسلام‘ امریکہ میں‘‘ کا مصنف لکھتا ہے کہ ''سلطنت مالی کے مسلمان بادشاہ ابوبکری کے ایما پر افریقی مسلمان 1312 ء میں دریائے مسی سپی کے راستے امریکہ میں داخل ہو کر اندونی سر زمیں کی چھان بین کر چکے تھے‘‘... '' 1530ء میں پہلی مرتبہ انسانوں کو غلام بنا کر امریکہ لا یا گیا۔ان کا تعلق مغربی افریقہ سے تھا۔ سوئے اتفاق سب سے پہلے ان لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا جن کے آبا و اجداد نے سب سے پہلے امریکہ دریا فت کیا تھا۔‘‘
اگر کبھی آپ کا امریکی دارالحکومت کی طرف آنا ہو تو میوزیم آف بلیک ہسٹری کی پانچ منزلہ عمارت میں ضرور جائیے گا۔ پانچ لاکھ مربع فٹ پر یہ عجائب گھر میڈیسن ایونیو سے ذرا آگے کانسٹی ٹیوشن ایونیو پر بنا یا گیا۔ایک طرف امریکن ہسٹری اور نیچرل ہسٹری کی عمارات ہیں۔آپ کے پسندیدہ ایئر ا ینڈ سپیس سے‘ جس کے صدر دروازے انڈی پنڈنس ایوینو پر کھلتے ہیں‘ زیادہ دور نہیں۔ دوسری جانب واشنگٹن مانو منٹ ہے جو ملک کے پہلے صدر کی یاد دلاتا ہے۔جوں جوں آپ اوپر جاتے ہیں امریکن نیگرو کی سیاہ رات پر سحر غالب آتی ہے۔نیم روشن حصے میں جیسی اوون کے جوتوں کا وہ جوڑا رکھا ہے جسے پہن کر وہ بر لن اولمپک میں دوڑا تھا اور سونے کا تمغہ جیت کر اپنے ملک کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ یہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کا زمانہ تھا اور اڈولف ہٹلر کے جرمنی نے اسے گوری نسل کی برتری ثابت کرنے کا سال قرار دیا تھا۔خانہ جنگی کے بعد 1865ء میں غلامی کے جواز کا قانون منسوخ کر دیا گیا لیکن 1955ء میں یعنی میری آمد سے پندرہ سال پہلے تک کالوں کی تکہ بوٹی اڑائی جاتی تھی۔عجائب گھر میں ایک سیاہ فام نوجوان کی تصویر ایک کفن میں لپٹی دکھائی دیتی ہے جسے ایک سفید فام عورت سے محبت کی پینگیں بڑھانے کے شبے میں سنگسار کر دیا گیا تھا۔اس میں جگہ جگہ فریڈرک ڈگلس کی تصو یریں لگی ہیں جو غلامی سے بھاگ نکلا تھا۔
نمائش گاہ میں باکسر محمد علی کا سر پوش رکھا ہے جس کے ساتھ کیسیس کلے کی کایا پلٹ کی کہانی بتائی گئی ہے کہ کس طرح اس نے اولمپک ٹائٹل جیتا‘ اسلام قبول کیا‘ جبری بھرتی پر اعتراض کیا اور جیل کی ہوا کھائی‘ عظیم ترین ہونے کا دعوی کیا اور ایک ثقافتی ترجمان بن گیا اوراس حیثیت سے لاہور اور دوسرے پاکستانی شہروں کا دورہ کیا۔ باسکٹ بال میں دراز قامت کریم عبدالجبار کی‘ جو حیات ہیں ‘ امریکی شہرت ایسی ہی ہے جیسی کہ کرکٹر شاہد آفریدی کی۔ اس کی بھی کئی اشیا رکھی ہیں۔
ہزاروں غلاموں نے اس امید میں انقلاب کی جنگ میں حصہ لیا کہ ان کی حالت بھی بہتر ہوگی۔عجائب گھر میں ایک پوڈر ہارن رکھا ہے‘ جو کالا سپاہی پرنس سمبو بجاتا تھا۔ہاتھی دانت کا یہ بھو نپو اس کی ملکیت تھا۔ ایک ریشمی شال ہے جو ملکہ وکٹوریہ نے ہیریٹ ٹبمین کو دیا تھا۔ٹبمین‘ جو غلام پیدا ہوئی ‘ خانہ جنگی کے دوران صدر ابراہیم لنکن کے جاسوسی ادارے کی رکن بنی اور پھر عورتوں کے ووٹ کی علم بردار ہو گئی۔ملکہ اس کے مداحوں میں شامل تھی۔غلاموں کے مالک اپنے غلاموں کو کرائے پر دے کر کچھ زائد پیسہ کما لیتے تھے۔یہاں ایک طوق رکھا ہے جو غلام کے گلے میں ڈال دیا جاتا تھا اور اس پر غلام کا پیشہ اور تاریخ درج ہوتی تھی۔ایک ٹریول گائڈ ہے جس میں ایسی جگہوں کا اندراج ہوتا تھا جہاں ایک سیاہ فام بلا تضحیک ٹھہر سکتا تھا۔ٹسکیگی انسٹی ٹیوٹ کا ہوائی جہاز ہے جو کالوں کی پلٹن کو تربیت دینے کے لئے بنایا گیا تھا۔اس پلٹن نے دوسری عالمی لڑائی‘ کوریا اور ویٹ نام کی جنگوں میں نما یاں حصہ لیا۔کو کلیکس کلین کا سرخ لبادہ ہے جو فلوریڈا کا ایک کسان پہنتا تھا اور رنگدار لوگوں کو ٹھکانے لگاتا تھا۔''بلیک زندگی کا بھی مقصد ہے‘‘یہ تحریک حال ہی میں شروع ہوئی اور اس کا مقصد کالوں پر پولیس تشدد کا خاتمہ ہے۔نمائش گاہ میں ایسی ٹی شرٹس پیش کی گئی ہیں جو تحریک کے جلسہ جلوس میں اکٹھی کی گئیں۔سیاہ فام ثقافتی شخصیتوں کی چیزیں بھی نظر آتی ہیں۔مثلاً اوون کا وارم اپ سوٹ‘ ایلیتھا گبسن کا ریکٹ جس سے اس نے پہلی بار ومبلڈن جیتا اور آنجہانی جیسی جیکسن کا نمدہ ہیٹ جو گلوکار کا ٹریڈ مارک بن گیا تھا۔ 
کھلے بندوں عجائب گھر کے افتتاح کی تقریب میں اوباما جارج بش اپنی بیویوں کے ہمراہ موجود تھے اور بل کلنٹن بھی‘ جنہوں نے اپنی صدارت کے آخری سال کہا تھا کہ آنے والی صدی میں امریکہ‘ سفید فام نہیں رہے گا۔وہ صدی شروع ہوئے سولہ سال ہونے کو ہیں اور ان کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی ہے۔ہلری نظر نہیں آئیں‘ اسی طرح جمی کارٹر نہیں تھے۔سابق صدر بیمار ہیں اور مسز کلنٹن غالباً پہلے صدارتی مباحثے کی تیاری میں مصروف تھیں۔۔ صدر اوباما اور خاتون اوّل مشل نے ایک مختصر سا ڈراما سٹیج کرنے کی کوشش کی۔ آخر میں وہ دونوں چل کر بونر خاندان تک گئے جس نے ورجینیا میں پہلا بپٹسٹ چرچ قائم کیا تھا اور جس میں 99 سالہ روتھ اوڈم بونر بھی شامل تھیں‘ جن کے والد غلام پیدا ہوئے تھے۔انہوں نے مفروضہ چرچ کی گھنٹیاں بجائیں۔اس اجتماع میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے ماں باپ غلام تھے مگر جو ڈاکٹر‘ انجینئر‘ جج‘ سیا ست دان‘ سفارت کار‘ ٹی وی شوز کے میزبان ‘ فوجی افسر‘ کھلاڑی ‘ موسیقار اور یونیورسٹیوں کے پروفیسر بن کر ریٹائر ہوئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں