ایک اخبار کا سجدہ سہو

''ہاں‘ روسی سفیر ٹرمپ ٹیم سے ملے‘ پھر کیا؟ ہم سفارتکاروں کا کام ہی یہ ہے‘‘ یہ عنوان ہے حسین حقانی کے مضمون کا جو امریکہ میں2008ء تا 2011ء پاکستان کے سفیر رہے۔ آج کل واشنگٹن میں ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ہیں۔ یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں دس مارچ کو شائع ہوا۔ پاناما لیکس سے فرصت ملی تو بارہ مارچ کو اردو ٹیلی وژن نے اسے اٹھایا اور پندرہ مارچ کے بعد تک اسے رگیدتے رہے۔ دراصل یہ اخبار کا سجدہ سہو تھا جو اس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخا لفت سے وقت نکال کرادا کیا۔ یہ نہ تو مدیر کے نام خط تھا اور نہ رائے بلکہ روزنامے نے اسے تناظر perspective)) کا نام دیا تھا۔ حقانی نے لکھا تھا کہ بطور سفیر وہ اپنے ملک سے اچھے تعلقات کے قیام کی خاطردونوں بڑی پارٹیوں کے امیدواروں کے معاونین سے ملے۔ واشنگٹن پوسٹ اور بعض دوسرے امریکی ذرائع ابلاغ کی اطلاع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی ما سکو کے ساتھ تعلق داری ایک آدمی کے گرد گھومتی تھی۔ انٹلی جنس ایجنسیوں کے مطابق روسی سفیرسرگے کسلیک (Sergey Kislyak) ہیکنگ اور بعض دوسری کوششوں کے ذریعے نومبر کے صدارتی الیکشن پر اثر انداز ہوئے جس کے نتیجے میں ما ئیکل فلن کو‘ جو قومی سلامتی کے مشیر مقرر ہوئے تھے‘ استعفا دینا پڑا۔ 
ایک ٹاک شو میں حسین حقانی ہنس رہے تھے اور کہہ رہے تھے: یاروں نے مضمون پڑھے بغیرانہیں '' غدار‘‘ تک بنا ڈالا۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بولے: ایک کمشن بٹھایا جائے جو یہ طے کرے کہ اسامہ بن لادن کس ویزا پر پاکستان آئے تھے؟ درحقیقت حقانی پیدائشی سیاستداں یا سفارت کار نہیں۔ وہ ایک صحافی ہیں جو صبح ہونے پر کان پر قلم رکھ کر گھر سے نکل پڑتے تھے۔ کبھی وزیر اعظم نواز شریف کی ملازمت کرتے تھے تو کبھی صدر آصف علی زرداری کی نوکری۔کمشن کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے بولے: میں نے ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور دوسرے لیڈروں کا انجام دیکھا ہے۔ پاکستان نہیں آؤں گا۔ کمشن چاہے تو الیکٹرانی وسائل سے میرا بیان لے سکتا ہے‘ جیسے کہ ایک کمشن نے منصور اعجاز کا بیان قلم بند کیا تھا۔ اپنی پارٹی کے سید خورشید شاہ‘ جو اب اپوزیشن لیڈر ہیں‘کو جواب دیتے ہوئے حقانی بولے: آپ پہلے پارٹی کی اصلاح کریں۔ سنتے ہیں کہ ان کے بڑے آ صف زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے حقانی کے مضمون پر سر جوڑ لئے ہیں۔ایک مسلم لیگی نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی‘ جس میں کہا گیاہے کہ حقانی نے بن لادن کے '' سہولت کار‘‘ کے فرائض سر انجام دیے۔ کسی نے اس مضمون کو ملازمت کی درخواست سے تعبیر کیا اور کسی نے اسے نئی حکومت سے تعلقات استوارکرنے کی کوشش کہا۔
اگر کسی نے حقانی کا مضمون نہیں دیکھا تو اس کے چیدہ چیدہ اقتباسات حاضر ہیں: '' نومبر2011ء میں طاقت پانے کی مستقل جدو جہد میں فوج کے جاسوس ادارے کو بالا دستی حاصل ہوئی تو مجھے بطور سفیر استعفا دینے پر مجبور کیا گیا۔ فوج کو مجھ سے جو شکایت تھی‘ وہ یہ تھی کہ میں نے سی آئی اے کے گماشتوں کی بڑی تعداد کو (سفر کی) سہولتیں دیں اور انہوں نے فوج کے علم کے بغیر (ایبٹ آباد میں) اسامہ بن لادن کا سراغ لگانے میں امداد کی۔ گو میں نے ساری کارروائی پاکستان کے منتخب سویلین لیڈروں کی اجازت سے کی‘‘۔ یہ سوال جمعرات کو وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس میں بھی اٹھایا گیا اور چوہدری نثار علی بولے ''کوئی غلط ویزا نہیں دیاگیا‘‘۔ آگے چل کر حقانی لکھتے ہیں: ''پاکستان کے بر عکس روس اور امریکہ کے تعلقات میں سنگین اتار چڑھاؤ آئے تھے اور کسلیک کے ذرائع ان سے مختلف نہیں تھے‘ جو غالباً ہر ملک کا سفیر آزمانے کی امید کرے گا‘ خواہ ان کے مقاصد نادر تھے۔
'' مجھے نہیں معلوم کہ کسلیک نے اسی جوش و خروش سے ہلری کلنٹن کے کیمپ سے رابطہ قائم کیا‘ جس سے انہوں نے ٹرمپ کے آدمیوں سے میل جول بڑھایا تھا... وہ غالباً خارجہ پالیسی کی سر بر آوردہ شخصیتوں کو اوباما کے عہد سے جانتے تھے جن کی انتظامیہ میں انہوں نے کام کیا تھا مگر اس معاملے کو ایک طرف رکھیئے۔ پالیسی سفیر نہیں بنایا کرتے۔ اگر امریکی الیکشن میں مداخلت کا فیصلہ کیا گیا تو یہ فیصلہ ماسکو میں ہوا ہو گا جیسا کہ اوباما سے عہد شکنی کا معاہدہ اسلام آباد میں ہوا تھا ان کے سفارت خانے میں نہیں۔‘‘
جنرل پرویز مشرف کی نو سالہ فوجی آمریت کے بعد جب زر داری نے اقتدار سنبھالا تو مئی 2008 ء میں حقانی کو امریکہ میں سفیر بنایا گیا۔ ''جارج ڈبلیو بش انتظامیہ نے نائن الیون کی افرا تفری میں مشرف کے ساتھ اتحاد بنا لیا تھا‘ اس امید میں کہ اقتصادی ترغیبیں اور فوجی ساز و سامان‘ پاکستان کو عسکریت پسندوں‘ جن میں افغان طالبان بھی شامل تھے‘ کو امداد دینے کی دیرینہ پالیسی سے دور لے جائے گا۔ 2007ء کے آتے آتے بش اور مشرف‘ دونوں نے احساس کیا کہ وہ یا تو دہشت گردی سے لڑائی کے وعدے پورے نہیں کر سکیں گے یا نہیں کر یں گے؛ چنانچہ مشرف نے پاکستان کی دوبارہ جمہوریت میں واپسی کا خیر مقدم کیا۔ زرداری اور گیلانی‘ جنہوں نے مجھے واشنگٹن میں سفیر مقرر کیا‘ گھر کے اندر اور باہر مشرف کی پالیسیوں کو الٹا دینے میں بش کی حمایت چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کی حمایت ترک کرنے کے حق میں ہیں اور بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تعین میں فوج کے رول میں کمی چاہتے ہیں۔ بدلے میں وہ ملک کی بیمار معیشت کی بہتری کے لئے فراخ دلانہ امریکی امداد کی امید کرتے تھے‘‘۔
حقانی نے اس مضمون میں'' پاکستان کو اطلاع دیے بغیر ‘‘ امریکیوں کے ہاتھوں ایبٹ آباد میں بن لادن کے مارے جانے کا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔ '' بدقسمتی سے امریکہ کو افغا نستان میں فتح نصیب نہیں ہوئی اور مستقل بنیادوں پر عسکریت پسندوں کی جانب پاکستان کی حکومت کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی لیکن اس عرصے میں جب میں سفیر تھا دونوں قوموں نے مل کر مشترکہ مفاد کی خاطر کام کیا‘ جو سفارت کاری کی روح ہے‘‘۔ اوباما نے ا نتخابی مہم کا ایک وعدہ پورا کر دکھایا۔ اب نواز شریف حکمران ہیں جو بھارت کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لندن سے خبر آئی ہے کہ افغانستان اور پاکستان بھی تعلقات معمول پر لانے پر تیا رہو گئے ہیں۔
''آیا روس نے امریکی انتخاب پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی یا نہیں؟ اس امر کا سراغ لگانے کے لئے امریکیوں کو لڑنے کا حق حاصل ہے۔ اس بات میں بھی کچھ صداقت ہے کہ تفتیشی افسروں نے سفارت کاروں سے روابط کے دوران حلفاً جھوٹ بولا؛ تاہم اس سے یہ تاثر نہیں ابھرنا چاہیے کہ کسی غیر ملکی سفیر سے رابطے بنیادی طور پر بْرے ہیں۔ اگر ایک نیا صدر اپنی خارجہ پالیسی کو حقیقت میں بدلنا چاہتا ہے تو ایسے رابطے لازم ہیں‘‘۔ حقانی کا اشارہ ان رابطوں کی جانب ہے‘ جو اسلام آباد میں اپوزیشن کے راہنماؤں سے غیر ملکی سفیروں کے درمیان انہی دنوں ہوئے اور علی الاعلان ہو ئے۔ ''میں نے ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک نیشنل کمیٹی سے ملاقاتیں کیں اور ان لوگوں سے ملا جن کے بارے کہا جاتا تھا کہ انہیں نئی انتظامیہ میں کوئی اہم عہدہ ملے گا۔ یہ سفیروں کا معمول ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں