ایشیا میں طاقت کی تثلیث بدلنے کا امکان

پاکستان اور چین کی مضبوط ساجھے داری‘ جیسا کہ وہ حال ہی میں اقتصادی راہداری (CPEC) سے ظاہر ہوئی‘ ایک عرصے سے ایشیا کی جغرافیائی سیاست (Geopolitics) میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے؛ تاہم گزشتہ چند مہینوں سے وسیع تر علاقائی ترقیات‘ جس میں ماسکو اور اسلام آباد کے نئے رشتے اور افغانستان میں اسلام آباد، ماسکو اور بیجنگ میں بڑھتا ہوا تعاون‘ یہاں اس افواہ کو جنم دے رہا ہے کہ پاکستان‘ چین اور روس میں ایک نیا اتحاد پرورش پا رہا ہے‘ جس میں امریکہ کی اہمیت کم ہو جائے گی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جب داخلے پر پابندی اٹھنے کے فوراً بعد گزشتہ سال واشنگٹن پہنچے تو انہوں نے 8 جون کو کانگرس کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا اور امریکہ ''قدرتی اتحادی‘‘ ہیں۔ اگلے روز میں نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ایک سابق سفیر سے نئے اتحاد کے بارے میں پوچھا تو خاتون نے ہاتھوں کے اشارے سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ تثلیث بدل رہی ہے اور یہ کہ عنقریب ہندوستان‘ امریکہ اور پاکستان روس کی جھولی میں ہوں گے۔
مسٹر مودی نے بھارت اور امریکہ پر زور دیا تھا کہ انہیں مل کر ''عالمی دہشت گردی‘‘ کا مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے کئی ممالک کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کر دیکھا مگر عراق‘ افغانستان‘ شام اور لیبیا میں انہیں کچھ خاص کامیابی میسر نہیں آئی۔ اس مقابلے میں پاکستان کا نقصان‘ ہندوستان سے کہیں زیادہ ہے۔ اس افواہ کو بجا طور پر اطلاع کا درجہ واشنگٹن میں ایک پاکستانی تھنک ٹنک نے دیا ہے جس کا نام ''انڈس‘‘ رکھا گیا ہے اور جو عارف رفیق اور اطہر جاوید کی کاوشوں سے قائم ہوا ہے۔ ''انڈس‘‘ نے ولسن سنٹر کے ایک ہال میں ایک اجتماع کا اہتمام کیا تھا‘ اور انتظامات کی حد تک اسے سنٹر کے ایشیا پروگرام‘ کنعان انسٹی ٹیوٹ اور کسنجر انسٹی ٹیوٹ کا تعاون حاصل تھا۔ The Pakistan-China-Russia Relationship: An Emerging Coalition عنوان خاصا پُرکشش تھا۔ کانفرنس ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمن (Kugleman) نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا ''دریں اثنا‘ چاہ بہار میں ہندوستان کی سرمایہ کاری اس وقت رفتار کھو بیٹھے گی‘ جب جوہری توانائی پر امریکہ اور ایران کے مذاکرات کو دھچکے لگیں گے۔ با ایں ہمہ‘ ان عوامل کو بالائے طاق رکھ کر واشنگٹن اس بات پر سکھ کا سانس لے سکتا ہے کہ ایشیا کی دو سرکردہ ابھرتی ہوی طاقتوں نے دنیا کے نہایت سٹریٹیجک خطوں میں سے ایک میں اپنے بٹوے ہلکے کئے‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے بعد اور انتخابی مہم کے دوران بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ ایران سے مغربی طاقتوں کے مذاکرات پھر سے شروع کریں گے اور ایران کے لیڈر حسن روحانی انہیں دھتکار چکے ہیں۔ اتر پردیش کی حکمرانی کے لئے مودی کے انتخاب یوگی ادتیہ ناتھ (راج) نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی تعریف کی کہ انہوں نے آٹھ مسلمان ملکوں کے لوگوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی۔ وہ خود مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دے چکے ہیں‘ اور ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق وہ مدر ٹریسا کو ہندوستان کو عیسائی بنانے کی ایک سازش کا جزو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے بالی ووڈ کے نامور فلم سٹار شاہ رخ خان کو دہشت پسند قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا تھا ''اگر وہ ایک ہندو ماریں گے تو ہم سو مسلمانوں کی جان لیں گے اور اگر ایک ہندو لڑکی کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ہم سو مسلمان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جائیں گے‘‘۔ ٹرمپ بھی امریکی قوانین کا اتنا ہی پاس کرتے ہیں۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے تین۔ گیروی (زعفرانی) چوغے والے یوگی راج کے خلاف اٹھارہ فوجداری مقدمات ہیں مگر وہ ملک کی سب سے بڑی ریاست کا انتظام چلائیں گے‘ جس کی آبادی بائیس کروڑ سے اوپر ہے۔ گُرو جی مودی کے ہاتھوں بابری مسجدکی تباہی کے بعد ان کے شعلہ بیان سنیاسی چیلے پر 2013ء کے فساد کا الزام ہے‘ جس میں ساٹھ سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوئے تھے؛ تاہم انہیں حالیہ الیکشن میں بی جے پی کو جتوانے کا حق دار سمجھا جاتا ہے‘ جس میں یو پی کی 403 نشتوں میں سے 325 مودی کے امیدواروں کے حصے میں آئیں‘ اور باقی زیادہ تر مسلمانوں کو ملیں۔ سیکولر ہند میں یہ مذہبی رجحان افسوسناک ہے۔
''وسطی ایشیا میں‘‘ کوگلمن بتاتے ہیں ''ہندوستان وہاں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے جہاں چین نے اپنی موجودگی کے مزے لئے ہیں؛ تاہم سب سے زیادہ اسے توانائی درکار ہے۔ گیس سے مالا مال اس خطے میں قدم جمانا آسان نہیں۔ ہندوستان کسی وسط ایشیائی ملک کے ساتھ مشترکہ سرحد نہیں رکھتا اور اس کی رسائی‘ تجارت میں راہداری کے حقوق دینے سے پاکستان کے انکار کے باعث مزید پابندیوں کا نشانہ بنتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک پائپ لائن کا تصور‘ جو افغانستان اور پاکستان کے راستے ترکمانستان سے بھارت پہنچائے گی‘ اب تک خواب و خیال ہے‘‘۔
سی پیک کا بل 46 ارب ڈالر ہے‘ جو پاکستان کے سالانہ جی ڈی پی کے بیس فیصد کے برابر ہو گا۔ یہ ترقیاتی تعاون سے بڑھ کر قوم بنانے کی بات ہے۔ پروجیکٹس میں ایک بندرگاہ‘ ایک ہوائی اڈہ‘ گیس کی ایک پائپ لائن اور تقریباً دو ہزار کلومیٹر ریل روڈ شامل ہوں گے۔ چین کے صدر ژی جنپنگ20 اپریل 2015ء کو جب اسلام آباد اترے تو انہوں نے کہا کہ چین کا جو دروازہ کھل رہا ہے بند نہیں ہو گا۔ کوگلمن کہتے ہیں ''پاکستانی پروجیکٹ‘ خطے میں چین کی سرمایہ کاری کا صرف ایک جزو ہے۔ افغانستان میں اس نے تین ارب ڈالر سرمایہ لگایا ہے‘ جس سے اسے کوئلے کے وسائل تک رسائی مل جائے گی اور وہ تیل کی تلاش کا حق دار ہو گا۔ یہ توانائی کے ورثوں کے لئے بحرہند کی چھان بین پر منتج ہو گا۔ اس نے وسطی ایشیا میں سڑکوں‘ ریلوں‘ پلوں اور پائپ لائنوں کا ایک جال بچھانے کی غرض سے بیس ارب ڈالر کا ایک فنڈ بھی قائم کر لیا ہے‘‘۔
امریکہ کے لئے‘ جو اب افغانستان میں جنگ و جدل میں مصروف نہیں ہے‘ یہ خوشی کی بات ہے کہ چین‘ استحکام کے فروغ کے لئے متعدد اقدامات کر رہا ہے۔ افغانستان میں اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کیلئے بیجنگ نے طالبان اور افغان حکومت میں مصالحت کی کوشش کو بڑھاوا دیا ہے۔ جب مسٹر ژی پاکستان میں تھے تو انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مل کر اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں گرم جوشی کا وقفہ بر قرار رہنا چاہیے‘ اور وزیر اعظم نواز شریف نے حال ہی میں دونوں ملکوں (پاکستان اور افغانستان) کی سرحد کوئی ایک ماہ تک بند رہنے کے بعد دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے۔ چین نے پہلی بار‘ یوم پاکستان کے موقع پر ایک آئی گور دستہ‘ فوجی پریڈ میں حصہ لینے کے لئے اسلام آباد بھیجا۔ وہ پاکستان پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ افغان انتہا پسندوں کو تلاش کرکے ان کے صفایا کا اہتمام کرے‘ جو پاکستان ''ردالفساد‘‘ کے تحت کر رہا ہے‘ جہاں سے بقول چین اس کے صوبے آئی گور پر حملے ہوتے ہیں۔ ترکمانستان سے تیل اور گیس تو نکلے ہیں مگر ساتھ ہی وہ جنگجوئوں کا ایک اڈہ بھی بن گیا ہے۔ امریکہ نے شاہراہ ریشم کی بحالی کا ایک اقدام بھی تجویز کیا۔ اینڈریو سمال اور اینڈریو کچنز (Kuchins) نے بھی اس گفتگو میں حصہ لیا‘ جو ایشیا پروگرام کے جرمن اور روسی شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں